2 فروری کو امریکہ نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدے (آئی این ایف) کے تحت طے شدہ اپنی ذمہ داریاں معطل کر دیں۔ یہ قدم روس کی جانب سے اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور درمیانے فاصلے کے زمین سے داغے جانے والے کروز میزائلوں کو ختم کرنے سے انکار کے بعد اٹھایا گیا۔ روس کے غیرقانونی ہتھیار اس معاہدے کی واضح پامالی ہیں جس کے تحت زمین سے داغے جانے والے ایسے میزائلوں پر پابندی عائد ہے جو 500 سے 5000 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہوں۔
امریکی حکام کہتے ہیں کہ اس خلاف ورزی کی نشاندہی پر روس نے بہت سے جھوٹ گھڑے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر1987 میں طے پانے والے اس سنگ میل معاہدے کی دوبارہ تعمیل کی جانب کوئی قدم نہ اٹھایا۔
4 دسمبر 2018 کو وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روس کو معاہدے کی دوبارہ تعمیل کے لیے 60 دنوں کی مہلت دی۔ ان 60 دنوں کا اختتام 2 فروری کو ہوا اور امریکہ نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں معطل کر دیں۔ یکم فروری کو پومپیو نے یہ بھی کہا کہ امریکہ آئندہ چھ ماہ میں باضابطہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری کے لیے اپنے منصوبوں سے متعلق آگاہ کرے گا۔ اگر اُس وقت تک روس نے اس معاہدے کی مکمل اور قابل تصدیق طور پر تعمیل نہ کی تو امریکہ معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔
روس کے پروپیگنڈہ بازوں نے اس صورتحال کے حقیقی ذمہ دار کے بارے میں چار فرضی کہانیاں پھیلائی ہوئی ہیں۔
پہلی کہانی: امریکی اعلان روس کے لیے حیران کن تھا۔
حقیقت: امریکی حکام نے سب سے پہلے 2013 میں روس کی جانب سے نئے میزائل کی تیاری پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے صدر ولاڈیمیر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سمیت روسی حکومت میں ہر سطح کے عہدیداروں کے ساتھ 30 سے زیادہ ملاقاتوں میں یہ معاملہ اٹھایا۔
دوسری کہانی: روس نہیں، امریکہ دھوکہ دے رہا ہے۔
حقیقت: روسی حکام نے چار سال تک نئے میزائل کی موجودگی سے انکار کیا جبکہ ان کا یہ پروگرام جاری رہا۔ چال چلتے ہوئے انہوں نے جوابی الزام عائد کیا کہ وہ نہیں بلکہ خود امریکہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مگر روسی الزامات کا ہدف وہ نظام تھے جو اس معاہدے کے تحت نہیں آتے۔ تمام نیٹو اتحادی اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ معاہدے پر عمل پیرا ہے جبکہ روس اس کی تعمیل نہیں کر رہا۔
تیسری کہانی: امریکہ ایک مرتبہ پھر اسلحے کی دوڑ چاہتا ہے۔
حقیقت: اپنے یورپی ہمسایوں کو دھمکانے والا واحد ملک روس ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ کا کہنا ہے، ”یورپ میں کوئی نئے امریکی میزائل نصب نہیں کیے گئے جبکہ نئے روسی میزائل موجود ہیں۔” اگر صرف ایک فریق معاہدے پر عمل کرے تو اسلحے کے پھیلاؤ پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔
چوتھی کہانی: امریکہ نے معاہدے سے نکلنے کے لیے روس کے خلاف الزامات گھڑے۔
حقیقت: روس کی جانب سے خلاف ورزی کے باوجود امریکہ اس معاہدے پر ذمہ دارانہ طور سے عمل پیرا ہے۔ قومی سلامتی کی پالیسی کے معاملے کی حیثیت سے امریکہ اسلحے کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی ایسی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جن سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی میں بہتری آئے اور ایسے اقدامات ناصرف قابل تصدیق اور قابل اطلاق ہوں بلکہ دونوں فریقین اس پر ذمہ دارانہ انداز میں عمل بھی کریں۔