
دنیا کے دیگر لوگوں کی طرح امریکہ کی آبائی اقوام کی فنی روایات بڑی حد تک عملی یا روحانی جڑوں سے ارتقا کی منزلیں طے کرتی ہیں۔ اگرچہ زیورات، مٹی کے برتن، بُنی ہوئی اشیاء یا “ٹوٹیم پول” یعنی لکڑی کے تراشیدہ کھمبوں جیسے روایتی قبائلی فنون اب بھی موجود ہیں مگر آبائی امریکی آرٹسٹ فنی اظہار کے نئے ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ ایسے متنوع شاہکار تخلیق کرتے ہیں جو ان کی ثقافت کے بارے میں کچھ لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرتے ہیں۔
فن کے بہت سے دلدادہ، آبائی امریکیوں کے مٹی کے آرائشی برتنوں، پیچیدہ نمونوں والے کمبلوں اور تیلیوں سے بنائی گئی ٹوکریوں سے واقف ہیں۔ ممکن ہے کہ عجائب گھروں میں جانے والوں نے لکڑی، ہڈی اور چمڑے سے بنی زرہ بکتر بھی دیکھی ہوں جنہیں اضافی تحفظ کی خاطر علامات سے سجایا گیا ہوتا ہے۔
امریکہ میں وفاقی سطح پر تسلیم شدہ 570 قبیلے ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور اُن کی مختلف ثقافتیں ہیں۔ اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ اِن میں سے بعض قبائل سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ ایسے فن پارے تخلیق کر رہے ہیں جو عام روایات سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ذیل میں پانچ آرٹسٹوں کا ایک مختصر سا احوال پیش کیا جا رہا ہے جن کے فن پارے آبائِی امریکیوں کے آرٹ کی صنف کے بارے میں ناظرین کے فہم میں وسعت پیدا کریں گے۔
ایڈمونیا لیوس (1844–1907)

بین الاقوامی شہرت یافتہ لیوس ریاست نیویارک کے بالائی حصے میں آزاد پیدا ہوئیں۔ وہ امریکہ کی پہلی سیاہ فام/آبائی [چپیوا] پیشہ ور مجسمہ ساز تھیں۔ امریکہ میں اپنی فنی تربیت مکمل کرنے کے بعد لیوس روم منتقل ہو گئیں جہاں انہوں نے امریکی آرٹسٹوں کی کمیونٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
عورتوں کی تاریخ کے قومی میوزیم میں لیوس کے جدید کلاسیکل مجسموں کو “احترام اور خوبصورتی کی حامل عورتوں اور آبائی قوموں کی کہانیوں” کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قلوپطرہ کی موت (ایک یادگار مجسمہ جس کو مکمل ہونے میں چار برس لگے)، ہاجرہ (بائبل کی شخصیت کی نمائندگی کرنے والی ابراہیم کی بیوی سارہ کی خادمہ) اور ہنری ویڈس ورتھ لانگ فیلو کی نظم “ہیواتھا کا گانا” سے متاثر ہو کر بنائے جانے والے مجسموں کے سلسلے کا شمار اُن کے مشہور مجسموں میں ہوتا ہے۔
اُن کے فن کی نمائش میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ اور سمتھسونین امریکن آرٹ میوزیم سمیت بہت سے امریکی عجائب گھروں میں ہو چکی ہے۔
آسکر ہو (1915–1983)

آسکر ہو ینکٹونائی ڈکوٹا آرٹسٹ تھے اور اُن کا تعلق جنوبی ڈکوٹا سے تھا۔ انہوں نے آبائی امریکی روایات کو جدیدیت پسند جمالیات کے ساتھ پیش کیا۔ وہ آبائی امریکیوں کے “کرو کریک ریزرویشن” نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اوکلاہوما یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں خدمات انجام دیں۔ ان کی مصوری کا مخصوص انداز شوخ رنگوں، جاندار تحرک اور جیومیٹری کی بڑی بڑی لکیروں سے ترتیب پاتا ہے۔ وہ آبائی امریکی فنون لطیفہ کی تحریک میں ایک ایسے موثر آرٹسٹ تھے جس نے آبائی امریکیوں کے آرٹ کے تصورات کو چیلنج کیا اور اپنے ہم عصر فنکاروں کے لیے راہ ہموار کی۔
آسکر ہو اپنے فن میں روایتی اقدار اور ابلاغ کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی قبائلی ثقافت کی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں۔ آرٹ کے نقاد جوناتھن کیٹس، فوربز رسالے میں لکھتے ہیں کہ ہو کے ہاں “سیدھی لکیریں راستبازی کی علامت تھیں اور حلقے ہم آہنگی اتحاد کی نمائندگی کرتے تھے۔”
ہو کے فن کی نمائش پوری دنیا میں ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے ایوارڈ جیتے۔
جیروم ٹائیگر (1941–1967)

اوکلاہوما کے ٹائیگر، مسکوگی-سیمی نول آرٹسٹ تھے۔ وہ ایک ذہین مصور تھے اور انہوں نے یہ فن خود بخود سیکھا۔ ٹائیگر نے 1962 سے لے کر 1967 میں اپنی موت تک کے عرصے میں سینکڑوں پینٹنگز بنائیں۔اُن کی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب اُنہوں نے اپنے ایک دوست کے اصرار پراپنی پینٹنگز ٹلسا کے فِلبروک آرٹ میوزیم کو بھیجیں۔ اوکلاہوما کی تاریخی سوسائٹی کا کہنا ہے کہ “اُن کی ذہانت کو فوری طور پر پہچان لیا گیا۔”
اوکلینڈ، کیلی فورنیا میں منعقدہ امریکہ کے آبائی باشندوں کے آرٹ کی قومی نمائش میں ٹائیگر کے فن پاروں کو پہلا انعام ملا۔ ریاست کنساس کے شہر وچیٹا میں ‘مڈ-امریکہ آل انڈین سنٹر’ کا کہنا ہے کہ ان کی آبائی امریکی لوگوں کی پینٹنگز “روحانی تصور، انسان دوست فہم، اور کمال کی تکنیکی صلاحیتوں کو یکجا کرتی ہیں۔”
اُن کے آئل، واٹر کلر، انڈے کے زردی کے رنگ، کیسین، پنسل، اور قلم اور سیاہی کے استعمال سے بنائے گئے فن پاروں کی نمائشیں امریکی عجائب گھروں میں کی جاتی ہیں۔ اِن میں اوکلاہوما سٹی میں ‘نیشنل کاؤ بوائے اینڈ ویسٹرن ہیریٹیج میوزیم’ اور واشنگٹن میں ‘سمتھسونین نیشنل میوزیم آف دی امریکن انڈین’ شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت خانوں میں “آرٹ ان ایمبیسیز” نامی پروگرام کے تحت بیرونی ممالک میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔
جیریمی ڈینس (پیدائش 1990)

ڈینس دورِ حاضر کے فنون لطیفہ کے فوٹوگرافر ہیں۔ وہ ساؤتھمپٹن، نیویارک میں آبائی امریکیوں کے شنیکاک قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ”میری فوٹو گرافی میں آبائی شناخت، ثقافتی انضمام، اور میرے قبیلے کے آبائی روایتی طریقوں کو پیش کیا جاتا ہے۔”
وہ (ڈیجیٹل فوٹو گرافی کا استعمال کرتے ہوئے) فلموں کے لیے ایسی منظر کشی تخلیق کرتے ہیں جس میں نقصان دہ دقیانوسی تصورات پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور انہیں ختم کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال فلموں میں دکھائے جانے والا “معزز وحشی” کی ہے۔ ڈینس کا کہنا ہے کہ “آبائی لوگوں کی بھرپور اور زبردست نمائندگی پیش کرنا اہم ہے۔”
ڈینس کہتے ہیں کہ آبائی امریکیوں کی “جڑیں اپنی قدیم کہانیوں کے ذریعے اپنی سرزمین میں پیوست ہیں۔ میری فوٹوگرافی پر اثرانداز ہونے والی آبائی اساطیریات مجھے اُس قدرو قیمت سمیت جو وہ اپنی مقدس زمینوں کو دیتے تھے اپنے آباؤ اجداد کے ذہنوں تک رسائی مہیا کرتی ہے۔ ان افسانوں کی عکاسی کرنے کے لیے نمونے تیار کر کے اور ترتیب دے کر میں اپنے آباؤ اجداد کی کہانیاں سنانے کی روایت کو جاری رکھنے اور اپنی سرزمین کے تقدس کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔” ان کے فن کی نمائش یونکرز، نیو یارک کے ‘ہڈسن ریور میوزیم’ میں ‘سائیکلز آف نیچر’ کے نام سے جاری ہے۔
وینڈی ریڈ سٹار (پیدائش 1981)

ریڈ سٹار ملٹی میڈیا آرٹسٹ ہیں۔ اُن کا تعلق آبائی امریکیوں کے ایپسالک [کوا] نامی قبیلے سے ہے اور وہ ریاست مونٹانا کے شہر بلنگز میں پیدا ہوئیں اور اب پورٹ لینڈ، اوریگن میں رہتی ہیں۔ اُن کی فوٹوگرافی اور تصویروں کے مجموعوں میں نسوانی اور آبائی امریکیوں کے نقطہ نظر کے حوالے سے تاریخی بیانیوں کو از سرنو بیان کیا جاتا ہے۔
ریڈ سٹار کی ‘ ایپسالک فیمینسٹ’ سیریز (2016) میں شامل اُن کی اپنی پورٹریٹس، اُن کے ایپسالک ورثے کی عکاسی کرتی ہیں اور ان کے مادری و پدری حسب نسب کو اجاگر کرتی ہیں۔ ریڈ سٹار کی 2021 کی آمنیا (گونج) کاغذ پر انمٹ سیاہی سے بنائی گئی تصویر کو گتے پر لگایا گیا ہے۔ ریڈ سٹار کی ویب سائٹ کے مطابق اس تصویر میں شناخت کی تلاش کے لیے “تاریخی بیانیوں کی حامل دستاویزی اور دور حاضر کی تصاویر کو باہم ملایا گیا ہے۔”
اُن کے فن پارے میوزیم آف ماڈرن آرٹ، میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ اور وٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے اداروں کے مستقل مجموعوں میں شامل ہیں۔