جب امریکی حکومت آبی زمینوں کو تحفظ دیتی ہے تو یہ قدرتی پانی کے خالص پن کو برقرار یا بحال رکھتی ہے، سیلاب پر قابو پاتی ہے، اور پرندوں، مچھلیوں اور دیگر جانوروں کے مسکنوں کے ساتھ ساتھ دیگر انتہائی اہم حیاتیاتی تنوع کی بھی حفاظت کرتی ہے۔
جیمز سالزمین یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے دو کیمپسوں یعنی لاس اینجلس اور سانتا باربرا میں ماحولیات کے بارے میں قانون کے پروفیسر ہیں۔ پروفیسر سالزمین کہتے ہیں کہ بے قابو ترقی اور موسمیاتی بحران نے آبی زمینوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
کیچڑ والی، گیلی، دلدلی اور جوہڑوں والی زمین سمیت، آبی زمینوں کا تحفظ کرنا اس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
سالزمین بتاتے ہیں، “جب ابتدائی آباد کار [امریکہ میں] آئے تو اُن کی نظر میں اُن کا کام زمین صاف کرنا تھا تاکہ وہ کھیتی باڑی یا تعمیرات کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ زمین سے پانی نکال دیتے تھے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل تک آبی علاقوں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا کیونکہ لوگوں کو [آبی علاقوں کی] قدروقیمت کا احساس نہیں تھا۔ وہ انہیں دلدل کے طور پر دیکھتے تھے جن کا مچھروں کی افزائش کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔”
ایک شاندار تبدیلی
1972 کے صاف پانی کے قانون کی منظوری ایک اہم تبدیلی تھی۔ زمین کے اوپر پانیوں اور آلودگی کے اخراجوں کے لیے کوالٹی کے معیارات قائم کرکے، نئے قانون نے آبی زمینوں کو نقصان پہنچانے کو مزید مشکل بنایا۔ 1989 میں اُس وقت کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے آبی علاقوں کی حفاظت کے لیے “نو نیٹ لاس” مہم [یعنی آبی زمینوں کے نقصان کی تلافی کرنے کی مہم] کا آغاز کیا۔ سالزمین کا کہنا ہے کہ تب سے وفاقی پالیسی یہ چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی نقصان زدہ آبی زمین کی جگہ مساوی یا اس سے بڑے رقبے اور اسی طرح کی افادیت اور قدروقیمت کی حامل آبی زمین تیار کی جائے۔
سالزمین بتاتے ہیں، “اُن چیزوں سے جن سے ہمیں بنیادی طور پر بچنا ہوتا ہے اور جنہیں تباہ ہونا ہوتا ہے، سے لے کر زمین کی اُن قیمتی خصوصیات تک جنہیں بڑے واضح طور پر قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے، ہمارا آبی زمینوں کے بارے میں سوچ کا ارتقاء بدستور جاری ہے۔ یہ ایک شاندار تبدیلی ہے۔”
آج امریکہ ملک کے اندر اور بیرونی ممالک میں آبی زمینوں پر کئی ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

حقیقی نتائج حاصل کرنا
پیرو میں امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ [یوایس ایڈ] کیرامپوما کی آبی زمین کی بحالی میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ آبی زمینیں برساتی موسموں میں پانی کو جذب اور خشک موسموں میں پانی کو آہستہ آہستہ خارج کرتی ہیں جو قریبی جھیلوں اور ندیوں میں جا گرتا ہے۔ اس سے پیرو (خشک موسم) کو دریاؤں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے اور (برساتی موسم ) میں فالتو پانی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ مسائل موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ہی ابتر شکل اختیار کر چکے ہیں۔
یو ایس ایڈ پیرو کے سارے شہروں کے لیے پانی کے ذرائع کو بحال کرنے اور پیرو کے لاکھوں باشندوں کو پانی کی قلت سے بچانے کے لیے کم از کم اسی طرح کے 22 منصوبوں پر پانی کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
میکسیکو میں میکسیکو کی حکومت کے تعاون سے کام کرتے ہوئے، “یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس” [امریکہ کی مچھلیوں اور جنگلی حیات کی سروس] رامسار کنونشن کے دائرہ کار میں آنے والی 142 آبی زمینوں کا نقشہ بنانے کے لیے فضائی تصویروں کا استعمال کر رہی ہے۔ رامسار کنونشن وہ معاہدہ ہے جس کی روشنی میں آبی علاقوں کے تحفظ اور دانشمندانہ استعمال کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔

اس پراجیکٹ سے اکٹھا کیا جانے والے ڈیٹا سے میکسیکو کو آبی زمینوں کی صورتحال کو رامسار کنونشن کے رکن ممالک کو معلومات فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ پراجیکٹ 2024 تک چلے گا۔
الاسکا میں سرکاری آبی زمینوں کے اپنے ڈیٹا کو تازہ ترین کرنے کے لیے، یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس ایک اور پراجیکٹ بھی چلا رہی ہے۔ یہ پراجیکٹ پانچ سال چلے گا اور اس سے وفاقی، ریاستی اور قبائلی اداروں کو زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔
آبی زمینوں کے قومی ریکارڈ کے برانچ منیجر جوناتھن فِنی کا کہنا ہے، “آب و ہوا کی تبدیلی میں کمی لانے کی کوششوں کے حوالے سے آبی زمینوں کا تحفظ ہمارے لیے بے حد اہم ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حفاظتی رکاوٹیں تعمیر کرنے کی نسبت یہ [متبادل] طریقہ بہت ہی سستا ہے۔”
وہ کہتے ہیں، “[آبی زمینیں] پانی کا ذخیرہ کر کے سیلابوں پر قابو پانے اور سمندری طوفانوں سے ساحلی علاقوں میں آنے والے پانی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔”