پیداواری صلاحیت بڑھانے کا ایک طریقہ آب و ہوا میں تبدیلوں سے نمٹنا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک نئی تحقیقی رپورٹ کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، 2030ء تک عالمی معیشت میں گھٹتی ہوئی پیداواری صلاحیت کے باعث 200 ارب ڈالر کا نقصان کر سکتے ہیں۔ اس کا سبب دنیا کے بعض حصوں میں موسم کا اس قدر گرم ہوجانا ہے کہ وہاں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں 43 ممالک ایسے ہیں جنہیں اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں سے انڈونیشیا، ملائشیا، چین، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت، بیشتر ممالک کا تعلق ایشیا سے ہے۔
2030ء تک انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کی جی ڈی پی میں 6 فیصد، جبکہ چین کی جی ڈی پی میں 0.8 فی صد اور بھارت کی جی ڈی پی میں 3.2 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں قائم صحت اور ماحول کے بین الاقوامی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر شیلسٹروم کہتے ہیں، ’’دنیا کے استوائی اور زیریں استوائی خطوں کے موسمی حالات پہلے ہی اس قدر گرم ہوچکے ہیں کہ وہاں گرمیوں کے موسموں میں بہت سے لوگوں کی صحت پر اُن کے پیشے اثرانداز ہو رہے ہیں۔‘‘
نا سا کے سائنس دانوں نے 19 جولائی کو اعلان کیا کہ اس سال اب تک کا عالمی درجہ حرارت، 2015ء کے پہلے نصف سال کے درجہ حرارت سے زیادہ رہا ہے۔
شیلسٹروم کا کہنا ہے کہ اب آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے گرم ترین دن، مزید گرم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں شدید گرم دنوں کی مجموعی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں “غالب امکان یہ ہے” کہ آرام کرنے کی بڑھتی ہوئی ضرورت، “ایک اہم مسئلہ بن جائے گی۔”
وہ صحت پر آب و ہوا کی تبدیلیوں کے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں اُن چھ مقالوں میں سے ایک کے مصنف ہیں، جنہیں کوالالمپور میں یو این یونیورسٹی کے عالمی صحت کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ نے مرتب کیا اور ایشیا پیسیفک جرنل آف پبلک ہیلتھ نے شائع کیا۔
شیلسٹروم نے دنیا کے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ وقت میں سخت محنت کریں … اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے ’’فیصلہ کن اقدامات اٹھائیں۔‘‘