امریکی صدور امریکی عوام سے براہ راست بات کرنےکے نت نئے طریقوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران اخبارات کی حکمرانی سے لے کر ریڈیو اور ٹیلیویژن کے دور اور اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دنوں تک امریکی صدور نئی اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے کسی رکاوٹ کے بغیر عوام تک اپنے پیغامات براہ راست  پہنچاتے چلے آ رہے ہیں۔

صدارتی روابط کے تاریخ دان اور سکالر، ڈیوڈ گرین برگ کہتے ہیں، “صدر تھیوڈور روزویلٹ وہ پہلے صدر تھے جنہوں نے  باقاعدگی سے عوام سے بات کرنے کو اپنا مقصد بنایا۔”

اپنے ایجنڈے کو پیش کرنے اور اسکی ترویج کے لیے 1901 سے لے کر 1909 تک صدارتی عہدے پر فائز رہنے والے صدر روزویلٹ اخباری رپورٹروں کو وائٹ ہاؤس میں لائے۔ اس سے ایک ایسا معیار طے پا گیا جس میں ان کے بعد آنے والے صدور مزید بہتری لے کر آئے۔

تاریخ دان مارگریٹ او مارا کہتی ہیں کہ عوام میں صدراتی پذیرائی سب سے زیادہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ [صدور] عوام سے شناسائی اور اپنی حکمرانی کے درمیان ایک توازن پیدا کرلیتے ہیں۔ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں ریڈیو پر فرینکلن ڈیلانو  روزویلٹ کی ریڈیو پر نشر کی جانے والی تقاریر کو عوام میں پذیرائی ملی اور انہیں ایسا لگتا تھا جیسے کہ صدر ان کے  ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ ریڈیو پر نشر ہونے والی ان گفتگوؤں نے جو “آتشدان کے گرد” بات چیت کہلائیں امریکی عوام کی جنگ عظیم دوم کے دوران اور بد ترین کساد بازاری  سے نمٹنے میں ڈھارس بندھائی۔

Megaphone (State Dept. / Doug Thompson)

گرین برگ کہتے ہیں، “صدر کی ذمہ داریاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک حیثیت ایسے سیاسی مدبر کی ہوتی ہے جو ملک کو چلاتا ہے اور دوسری ایسے سیاسی قائد کی جو اپنے خیالات اور حکمت عملیوں پر دلائل سے گفتگو کرتا ہے۔” چند صدور نے اپنے فن تقریر کے بل بوتے پر اپنی حکمت عملیوں اور اپنے فیصلوں کو آگے بڑھایا۔ اس کی مثال صدر جان ایف کینیڈی کا 1963 میں امریکن یونیورسٹی کا تقسیم اسناد کا مشہور خطاب ہے جس نے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربوں پر پابندی کے پہلے سمجھوتے کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔

صدور پریس کے ذریعے بھی عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ گرین برگ کا کہنا ہے کہ یہ دوطرفہ رشتہ عموماً پیغام تک رسائی اور اس کے کنٹرول کے درمیان ایک قسم کی مسابقت ہوتی ہے۔

گو کہ پریس کانفرنسوں کو ٹیلیویژن پر لانے والے پہلے صدر ڈیوائٹ آئزن ہاور تھے لیکن صدر کینیڈی وہ پہلے صدر تھے جنہوں نے پریس کانفرنسوں کو اُس آڈیٹوریم سے براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی جس میں 200 سے زائد اخباری رپورٹروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

Reporter's hat and notebook (State Dept. / Doug Thompson)

ایک بار جب براہ راست نشریات اور’ آن دی ریکارڈ’ پریس بریفنگز [سوالات و جوابات] معمول کا حصہ بن گئیں تو امریکی صدور زیادہ تدابیر سے کام لینے لگے۔  صدر رچرڈ نکسن نے وائٹ ہاؤس کے اندر 1969 میں ابلاغ عامہ کا دفتر قائم کیا اور پھر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کے لیے انہوں نے شام کے وقت پریس کانفرنسوں کا آغاز کیا۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

1981 میں صدر بننے سے بہت پہلے امریکی عوام صدر رونالڈ ریگن کو ٹیلیویژن پر دیکھنے کے عادی تھے۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ ایک اداکار اور ٹیلیویژن سکرین پر سیلزمین کے طور پر جانے جاتے تھے۔

Laptop (State Dept. / Doug Thompson)

وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کا اجراء اور ای میل کی موصولی صدر کلنٹن کے دور میں شروع ہوئی۔ لیکن صدر کلنٹن نے محض دو ای امیلیں بھیجیں۔ ایک ای میل انہوں نے بیرون ملک موجود فوجی دستوں کو بھیجی جبکہ دوسری ای میل انہوں نے سینیٹر اور اپالو کے خلاباز جان گلین کو اس وقت بھیجی جب وہ 1998 میں دوبارہ خلاء میں گئے۔

 صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے پہلی بار سوشل میڈیا پر صدارتی اکاونٹس بنائے۔ انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کے جن اداروں کو انٹریو دے کر ان کی ساکھ بنائی ان اداروں میں “بز فیڈ” کی آن لائن پوسٹ کی جانے والی مطبوعات اور ریڈ اٹ کے ‘مجھ سے کوئی بھی چیز پوچھو (ask me anything)  فورم شامل تھے۔

Phone with Twitter logo (State Dept. / Doug Thompson)

صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر پر لگ بھگ 5 کروڑ 20 لاکھ  فالوور ہیں اور وہ امریکی عوام سے برائے راست مخاطب ہونے کے لیے باقاعدگی سے ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

بالآخر ہر صدر عوام تک رسائی کے لیے وہی ذریعہ استعمال کرتا ہے جو اس کی شخصیت سے سب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ گرین برگ سمجھتے ہیں کہ ٹیلیویژن صدر ریگن کے لیے آسان تھا اور صدر ٹرمپ کا جھکاؤ ٹوئٹر کی طرف ہے “کیونکہ وہ ان کی شخصیت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔”