آرٹ کی ایک نمائش میں پیش کی جانے والی مسلمانوں اور یہودیوں کی امیگریشن کی مشترکہ کہانیاں

قطاروں میں ترتیب سے رکھے گئے مختلف فن پارے (Courtesy of JAMMARTT)
"وی گوٹ دیئر فرام ہیئر" نامی نمائش میں آرٹ کے کاموں کا مجموعہ۔ اس میں 11 یہودی اور مسلمان آرٹسٹوں کے 20 فن پارے رکھے گئے ہیں۔ (Courtesy of JAMMARTT)

یہودی اور مسلمان آرٹسٹوں کی آرٹ کی نمائش کے داخلی دروازے پر رنگ برنگی کڑھائی والا کپڑے کا ایک ٹکڑا لٹک رہا ہے جس پر عبرانی زبان میں “خوش آمدید” لکھا ہوا ہے۔ یہ کپڑا دنیا کے مختلف کونوں سے لائے گئے ریشم سے تیار کیا گیا ہے۔

یہ کپڑا ایک شال ہے جسے شرلی ویکسمین نے بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، “ہمیشہ سے یہ ایک یہودی روایت چلی آ رہی ہے کہ اجنبی کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمیں تارکین وطن [کو] اپنے ملک اور اپنے گھروں میں خوش آمدید کہنے کی ضرورت ہے۔”

لہذا فیئر فیکس، ورجینیا میں ‘ جیوئش کمیونٹی سینٹر’ (جے سی سی) میں “وی گوٹ دیئر فرام ہیئر:امیگریشن سٹوریز” [ہم یہاں پر وہاں سے پہنچے: امیگریشن کی کہانیاں] کے نام سے ایک نمائش کا آغار کیا گیا جس میں 11 آرٹسٹوں کے 20 فن پارے رکھے گئے ہیں۔ تمام آرٹسٹ یا تو خود تارکین وطن ہیں یا حالیہ ایسے تارکین وطن کی اولادیں ہیں جو بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ آئے تھے۔

یہودیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی ثقافتوں، مذاہب اور تاریخوں کے بارے میں جاننے کی خواہش کے تحت 2008 میں یہودی اور مسلمان آرٹسٹوں نے “اکٹھے مل کر یہودیوں اور مسلمانوں کا آرٹ تخیلق کرنا” [جے اے ایم ایم اے آر ٹی ٹی] کے نام سے ایک گروپ بنایا۔ اس کے بعد سے انہوں نے اپنے مشن کی مناسبت سے “دوستی، کمیونٹی، تخلیقی صلاحیتوں اور امید کے ذریعے مختلف عقائد اور ثقافتوں کی ہم آہنگی” کے بارے میں بہت سی نمائشیں منعقد کیں۔

“وی گوٹ دیئر فرام ہیئر” کی منتظمہ، سارہ بیری کہتی ہیں کہ وہ اور گروپ کی شریک بانی بیٹسی ناہوم-ملر یہ دکھانا چاہتی تھیں کہ دونوں مذہبی گروہوں میں کتنا کچھ مشترک ہے۔ اس کی علاوہ وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ دنیا بھر میں کیے جانے والے تارکین وطن کے سفروں کے بارے میں بات کی جائے۔

 تصویری مجموعہ کڑھائی والے پس منظر میں کاغذات اور تصویریں (© Larry Levine)
‘ دادی اماں روز کا افغان’ کے عنوان سے لیری لیوین کا تصویروں کا مجموعہ۔ (© Larry Levine)

بیری جے سی سی میں باڈزن آرٹ گیلری کی سربراہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، “جب میں نے نمائش کے تصور کے بارے میں سنا تو میں نے سوچا یہ تو’بالکل وہی ہے جو کچھ ہم ہیں۔’ ایک ایسا آرٹ شو جو اُس کہانی کو بیان کرتا ہے اور جو لوگوں کی تاریخوں اور مشترکات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ چیز حقیقتا میرے دل کو لگی۔” ویکسمین نے جو کہ اس  گروپ کی دوسری شریک بانی ہیں، بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یہ شو شمولیت اور قبولیت کے پیغام کو فروغ دے۔ انہوں نے کہا، “مجھے خوش آمدید اور خوشی کا احساس پسند ہے۔ اس میں بہت سارے رنگ ہیں۔”

ویکسمین کے دادا دادی 1920 کی دہائی میں ہجرت کرکے کینیڈا آئے اور وہ 1960 کی دہائی میں ہجرت کرکے امریکہ چلی آئیں۔

آرٹسٹ شہلا قمر کئی دہائیاں قبل پاکستان سے اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کر کے امریکہ آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنی دو پینٹنگز بنانے نے انہیں اپنے خاندان کے ہجرت کے تجربے کے قریب تر کر دیا ہے۔

اس سے انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ اُن تمام لوگوں کی کتنی قدر کرتی ہیں جنہیں ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونا پڑا ہے۔ “مجھے وہ مشکلات یاد ہیں جب میرے والدین نے 1947 میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ اس وقت مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر کسی نئی جگہ جانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔”