
امریکی فوج اور سمتھسونین انسٹی ٹیوشن کے درمیان شراکت کاری دوسری عالمی جنگ کے دور کے ” مونومینٹس مین” یعنی یادگاروں کی حفاظت کرنے والے فوجیوں کے ورثے کو لے کر آگے چلے گی۔ یاد رہے کہ جن اتحادی فوجی افسران کو ثقافتی اشیاء کو نازیوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان یا چوری سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انہیں “مونومینٹس مین” کہا جاتا تھا۔

آج جنگ کے دوران ثقافتی ورثے کی لوٹ مار کو روکنے کے لیے سمتھسونین اور امریکی فوج دونوں مل کر مردوں اور خواتین افسروں کی ایک نئی نسل کو تربیت دے رہے ہیں۔ ان کے مشن میں اب قدرتی آفات کے دوران آرٹ ورک کو نقصان سے محفوظ رکھنے کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
سویلین اور فوجی مہارت

آرٹ کی مورخ اور عجائب گھر کی مہتمم، کورین ویگنر سمتھسونین کی ثقافتی اشیاء کو بچانے کے پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ فوج کی سابقہ ریزرو افسر ہیں اور عراق میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔ اسی طرح ریاست ٹیکساس میں رہنے والے سکاٹ ڈی جیس فوج کے ریزرو کرنل ہیں اور عراق اور افغانستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ویگنر اور ڈی جیس نے مل کر ایک نیا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ دونوں نے ورجینیا کے فورٹ بیلوائر میں امریکی فوج کے قومی عجائب گھر میں اس پروگرام میں نئے بھرتی ہونے والوں کے لیے ایک حالیہ تربیتی کورس کی نگرانی کی۔ (دوسری تربیتی کلاس کا بندوبست سمتھسونین میں کیا گیا تھا۔)
دوسری عالمی جنگ کے اپنے پیشروؤں کی طرح 21 مونومینٹس افسران مستقبل میں اپنے مشن مکمل کرنے کے لیے مختلف مہارتیں حاصل کریں گے جن میں ایک طرف اُن کا شہری تجربہ ہوگا جبکہ دوسری طرف اُن کی فوجی تربیت ہوگی۔
یہ لوگ عجائب گھروں کے تجربہ کار مہتمم، آرٹ کے مورخین، آثار قدیمہ کے ماہر اور نوادرات کو محفوظ بنانے والے وہ افراد ہیں جنہوں نے فوج میں ریزروسٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ اس حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے سویلین پیشوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی فوجی یونٹوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تربیت حاصل کرتے رہیں گے۔ پندرہ کو امریکی فوج کی ‘سول افیئرز اینڈ سائیکولوجیکل آپریشنز کمانڈ‘ میں تعینات کیا گیا ہے جبکہ چھ کا تعلق امریکی اتحادیوں کے فوجی ریزروسٹوں کے ساتھ ہوگا۔

اِن نئے ریزروسٹوں نے ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں۔ وہ بنیادی فوجی مہارتوں اور فوجی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کا علم حاصل کرنے کے لیے کورسوں میں شریک ہوں گے۔ سرکاری طور پر انہیں جی/6 وی38 ورثے اور تحفظ کے افسران کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ریزروسٹ میدان عمل میں مؤثر طریقے سے کام کرنا اور دیگر فوجی یونٹوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا سیکھیں گے۔
ویگنر نے بتایا کہ “ہماری 10 روزہ تربیت کے زیادہ تر حصے کا تعلق ثقافتی ورثے کے حوالے سے آفات کے خطرے سے نمٹنے سے متعلق کلیدی تصورات کو متعارف کرانا، ثقافتی ورثے کے علم کو فوجی کاروائیوں کے تقاضوں کے ساتھ مربوط بنانا، اور ایک مضبوط ٹیم کی حرکیات پیدا کرنا ہے۔”
‘مدد کے لیے موجود’

عملی کام کی ایک مشق میں کسی فرضی ملک میں “آرٹ کے فن پاروں” کی حفاظت کرنے والے ایک (نقلی) سکیورٹی گارڈ نے “حادثاتی طور پر” ایک قیمتی پینٹنگ پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ (حقیقت میں استعمال شدہ چیزیں بیچنے والی گیراج سیل کے دوران ایک معمولی سی چیز کے سلسلے میں ایسا ہو چکا ہے اور اس چیز کو ٹھیک کر لیا گیا تھا۔) اس سے مونیومنٹس افسروں کو سکھایا گیا کہ موقعے کے حالات کے مطابق چیزوں کو دستیاب وسائل سے کیسے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ زیرتربیت افرد کو بحران کے دوران اپنے اوسان بحال رکھنے میں مدد کرنے کے لیے رچایا گیا تھا۔
سالانہ تربیتی پروگراموں کا منصوبہ بھی بنایا جائے گا اور ریزروسٹوں کے اپنے شہروں کے یونٹوں کے ساتھ مل کر ماہانہ تربیتی پروگرام ترتیب دیئے جائیں گے۔
بیرون ملک تعیناتی کے دوران مونومینٹس افسر دوسرے فوجی یونٹوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور اپنے میزبان ملک کے عجائب گھروں کے پیشہ ور افراد سمیت شہریوں سے رابطہ کریں گے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ وہ کہاں سب سے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ڈی جیس نے کہا کہ “میں مقامی کمیونٹیوں کی راہنمائی میں چلنا چاہتا ہوں اور انہیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنے دیتا ہوں۔ یہ ان کا ورثہ ہے… ہم مدد کے لیے جاتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ ورثے کے لحاظ سے یہ “ایک ایسی خاص تاریخ ہے جس سے ہم جڑے ہوئے ہیں۔” اس کا تعلق دوسری جنگوں کے سابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ دوسری عالمی جنگ کے مونومینٹس مین سے بھی ہے۔
ہالی ووڈ کی فلم دی مونومینٹس مین کی وجہ سے اس ورثے کو بڑے پیمانے پر شہرت ملی۔ ( اس فلم کی کہانی کسی حد تک رابرٹ ایڈسیٹ اور بریٹ وِٹر کی نان فکشن کتاب پر مبنی تھی جس کا نام ‘ دی مونومینٹس مین: اتحادی ہیروز، نازی چور ، اور تاریخ میں عظیم ترین خزانے کی تلاش‘ تھا) اور ہاں اِس میں چند ایک مونومینٹس ویمن یعنی خواتین بھی شامل تھیں۔
ویگنر نے کہا، “میرے خیال میں ہم سب دوسری عالمی جنگ کے مونومینٹس مردوں اور عورتوں کو اندھیری رات میں راستہ دکھانے والے قطبی ستارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ [آج] ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس دور کی جنگیں اپنے ساتھ مختلف قسم کے چیلنجوں لے کر آتی ہیں۔” سمتھسونین میں “امریکی اور بین الاقوامی مونومینٹس افسران مل کر تربیت حاصل کر سکتے ہیں اور دیرپا تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس اب فوجیوں کا ایک پیشہ ورانہ نیٹ ورک موجود ہے جس پر وہ انحصار کر سکتے ہیں اور اُن کا مشن اُنہیں جہاں بھی لے جائے وہ مشورہ کر سکتے ہیں۔”