اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق ایران کی حکومت نے سوشل میڈیا کی آواز کو دبانے اور پریس کی آزادی پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایرانی حکومت نے گزشتہ تین برسوں کے دوران درج ذیل اقدامات اٹھائے ہیں:
- فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور انسانی حقوق اور سیاسی مخالف گروپوں کی ویب سائٹوں سمیت، 70 لاکھ ویب ایڈریسوں کو بند کیا گیا۔
- ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جس سے [حکومتی] خفیہ نگرانی کی اہلیتوں میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے پلیٹ فارموں کے لیے لازم قرار پایا کہ وہ یا تو اپنے ‘کمپیوٹروں کے سرورز’ ایران میں منتقل کریں۔ بصورت دیگر انہیں بند کر دیا جائے گا۔
- سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ لوکیشن شیئرنگ پلیٹ فارمز [ایک دوسرے کے محل وقوع سے باخبر رکھنے والے پلیٹ فارموں] کو بھی بند کر دیا گیا۔
ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے مطابق برٹش براڈکاسٹنگ سروس یعنی بی بی سی کی فارسی سروس کے بعض اراکین کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا، حراست میں رکھا گیا اور انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اس رپورٹ پر اپنے 12 مارچ کے اجلاس میں غور کیا۔ یہ رپورٹ پاکستان کی نامور وکیل، عاصمہ جہانگیر نے تیار کی جو خصوصی نمائندے کے طور پر فروری میں اپنے انتقال تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتیں رہیں۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے 15 مارچ کو اپنے ایک بیان میں کہا، “امریکہ کو ایران میں پریس کو درپیش گھمبیر حالات پر تشویش ہے۔”
نوئرٹ نے کہا، “امریکہ ایرانی حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پریس کے اراکین سمیت اپنی اُن ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کی شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ ضمانت دیتا ہے۔”