
چینی حکومت نے کتاب شائع کرنے والی ایک خاتون کو تین سال کی قید کی سزا دی ہے کیونکہ اس نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایک مشہور نقاد کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔ جینگ شیاؤنان کی سزا سے پہلے جنوری میں پارٹی نے ہانگ کانگ میں درجنوں سیاست دانوں اور جمہوریت کے حامیوں کو گرفتار کیا۔
مطلق العنان حکومتیں اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے تقریر کو سزا کا نشانہ بناتی ہیں۔
نومبر 2019 میں ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا اور 1,500 سے زائد مظاہرین کو ہلاک کیا۔ ایرانی حکومت نے اُن ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں شریک افراد کے خلاف کاروائیوں کے دوران اِن مظاہرین کو ہلاک کیا، جن کی ابتدا تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہوئی مگر بعد میں یہ حکومتی بدعنوانی اور بد انتظامی کے خلاف مظاہروں کی شکل اختیار کر گئے۔
ایرانی حکومت صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور لازمی حجاب کے قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والی عورتوں کو بھی معمول کے مطابق قید کرتی رہتی ہے۔ چین کی حکمران پارٹی فلموں کو سنسر کرنے کے علاوہ، شنجیانگ اور تبت میں حکومت کی جابرانہ پالیسیوں پر یا دیگر مطلق العنان ہتھکنڈوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کو بھی سنسر کرتی ہے۔
امریکہ میں جمہوریت کے ایک لازمی جزو کے طور پر آزادی تقریر کو تحفظ حاصل ہے۔

امریکہ کے بانیوں میں سے ایک، بنجمن فرینکلن نے آزادی تقریر کو “آزاد حکومت کا ایک اہم ستون” قرار دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ آزادی تقریر کے بغیر، “ایک آزاد معاشرے کا آئین ختم ہو جاتا ہے، اور اس کے کھنڈرات پر جبر کی [عمارت] کھڑی کر دی جاتی ہے۔”
تقریر کے تحفظ سے معاشرے کا فروغ
امریکیوں کا حکومت کے مسلط کردہ جبر یا پابندی کے بغیر آزادی سے بولنے کا حق، امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں درج ہے۔ اس کے علاوہ مذہب، پریس، اور اکٹھا ہونے کی آزادیوں اور شکایات کے ازالے کے لیے حکومت کو درخواست دینے کا حق بھی پہلی ترمیم میں شامل ہے۔
یہ پانچ آزادیاں شہریوں کو معاشرے میں مکمل طور پر حصہ لینے، خود حکمرانی کرنے، منتخب اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرانے، پرامن طریقے سے احتجاج کرنے اور یہاں تک کہ سماجی تحریکوں کی قیادت کرنے کا اختیار بھی دیتے ہیں۔
25 مئی 2020 کو منیاپولس میں قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں کمیونٹیوں کو تحفظ دینے اور تمام امریکیوں کے لیے مساویانہ انصاف کو فروغ دینے کے لیے پولیس اصلاحات کا آغاز ہوا۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تقاریر نے ہزاروں افراد کو 1950 اور 60 کی دہائیوں میں چلنے والی شہری حقوق کی تحریک کے دوران مساوی حقوق کے لیے پر امن طریقے سے مارچ کرنے کی ترغیب دی۔ ان پرامن مظاہروں نے 1964ء کے شہری حقوق کے قانون کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ اس قانون کے تحت نسل، رنگ، مذہب، جنس یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک ممنوع قرار پایا۔
اگرچہ شہری حقوق کی تحریک، آزادی تقریر کے استعمال کی نمایاں ترین شکل ہے، تاہم امریکی ہر روز اپنی مقامی، ریاستی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ باہمی تعامل میں اس حق کا استعمال کرتے ہیں۔ صرف وائٹ ہاؤس کو ہر روز امریکیوں کی طرف سے ہزاروں خطوط اور ای میلیں موصول ہوتی ہیں۔