ستمبر کے پورے مہینے میں واشنگٹن میں مطالعے کے شوقین ایسی کتابوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جن کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں پڑھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
مقامی چائے خانوں، لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں پر سیاہ کاغذ میں لپٹے ہوئے پارسل نظر آتے ہیں۔ ان میں سنسر کا نشانہ بننے والی کتابیں لپٹی پڑی ہوتی ہیں۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی سرکاری لائبریری کی منظم کردہ UncensoredDC scavenger hunt# نامی مہم، امریکہ بھر میں ‘ممنوعہ کتابوں کے ہفتے’ میں ترتیب دیے گئے متعدد پروگراموں میں سے ایک ہے جس میں اطلاعات تک بلا روک ٹوک اور آزادانہ رسائی کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے۔
‘ممنوعہ کتابوں کے ہفتے’ کی سرپرستی کرنے والی ‘امریکن لائبریری ایسوسی ایشن’ کے جیمز لارُو کا کہنا ہے کہ “یہ امریکہ میں مطالعے کی آزادی منانے کا واقعتاً ایک عمدہ طریقہ ہے۔ دیکھیے کہ کوئی آپ کو کیا کچھ پڑھنے سے روکنا چاہتا ہے۔”
یہ مہم کتابوں پر پابندی اور امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے تحت شہریوں کو حاصل حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرتی ہے۔ ان حقوق کے تحت شہریوں کو آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی ضمانت دی گئی ہے۔
Books glorious books! Did you catch the @wamu885 #UncensoredDC location clue this AM? pic.twitter.com/szCpODuuqD
— DCPL Literati (@dcpl_literati) September 20, 2017
امریکہ میں کتابوں پر پابندی لگانے کی کوششیں عام طور پر نہیں کی جاتیں اور “امریکن لائبریری ایسوسی ایشن” جیسی تنظیمیں اس صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتیں ہیں۔
2016 میں کم و بیش 370 ایسے “چیلنج” سامنے آئے جن کے تحت کسی نہ کسی نے سکول کے نصاب سے خارج کرنے یا سرکاری لائبریریوں سے کتابیں ہٹانے کی کوشش کی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں 90 ہزار سرکاری لائبریریوں یا سکولوں میں کروڑوں کتابیں موجود ہیں۔
لارُو کہتے ہیں کہ لائبریرین اس مہم کے چیلنجوں کی تعداد کو احتیاط سے دیکھتے ہیں۔ “ہماری مثال آگ کی نشاندہی کرنے والوں کی سی ہے، آپ چاہتے ہیں اسے پھیلنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔”
واشنگٹن میں کتابوں کی تلاش کی اس مہم کا ہدف بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جنہیں ادبی شاہکار گردانا جاتا ہے۔ مارگریٹ ایٹ وڈ کی ‘ دی ہینڈ میڈز ٹیل‘ اور یوگینی زمیاٹن کی ‘ وی‘ اور لوئس لوریز کی ‘ دی گِور‘ ان کی نمایاں مثالیں ہیں۔ کسی کتاب کو چیلنج کرنے کی ایک عام وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کتاب مخصوص عمر کے بچوں یا سکول کے کسی خاص درجے کے لیے نامناسب ہے۔
لارو کہتے ہیں کہ خیالات کے اظہار کی آزادی اور دوسروں کے نکتہ نظر کو سننا ایک ایسا عمل ہے جس پر امریکیوں کو بہت ناز ہے۔
وہ کہتے ہیں، “یہ امریکہ کا خاصا ہے کہ خواہ آپ کسی بھی نظریے کے حامل ہوں اور کسی مسئلے پر کسی موقف کے حامی ہوں، آپ عوامی لائبریری میں جا سکتے ہیں اور آپ کو اس حوالے سے مواد مل سکتا ہے۔”