آزاد صحافت کی طاقت کا مظاہرہ

ریڈیو کے سٹوڈیو میں بیٹھے سامبا ڈیامانکا (Courtesy of Samba Diamanka)
امریکہ کے صحافیوں کے تبادلے کے پروگرام کے تحت سینی گال سے تعلق رکھنے والے سامبا ڈیامانکا یکم مئی کو سان فرانسسکو میں واقع کے سی بی ایس ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیو میں۔ (Courtesy of Samba Diamanka)

سامبا ڈیامانکا سینی گال کے ایک قومی روز نامے میں سیاست اور معاشرے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ کسی دن اپنی ایک نیوز سائٹ شروع کرنا چاہتے ہیں۔

مئی میں سان فرانسسکو کے اپنے قیام کے دوران انہوں نے امریکی رپورٹروں سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے ہم منصب امریکی صحافیوں کی مستقل مزاجی اور آزادی سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “یہاں پر [ہمارے صحافی] رفقائے کار کو اظہار رائے کی چند استثناؤں کے سوا  مکمل آزادی حاصل ہے۔”

ڈیامانکا کا تعلق افریقہ کے اُن 10 رپورٹروں کے ایک گروپ سے تھا جس کے اراکین نے اپنے کئی ہفتوں کے قیام کے دوران امریکی میڈیا کے اداروں کے دورے کیے۔ یہ رپورٹر امریکی محکمہ خارجہ کے صحافیوں کے ایڈورڈ آر مرو پروگرام کے تحت امریکہ آئے تھے۔

  امریکی ہم منصبوں سے ملاقاتیں

ڈیامانکا کے گروپ کے اراکین نے ریاست ایریزونا کے شہروں فینکس اور ٹوسان کے علاوہ سینٹ پیٹرزبرگ، فلوریڈا، اور شکاگو میں میڈیا کے اداروں کے دورے کیے۔ اُن کے  دوروں کا اہتمام بین الاقوامی قیادت کے دورے کے پروگرام کے تحت کیا گیا تھا۔ اس دوران ڈیامانکا اور اُن کے ساتھیوں نے جمہوریت میں آزاد میڈیا کے کام کرنے اور پیش ورانہ معیاروں کو برقرار رکھنے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔

ڈیامانکا نے کہا کہ “[میرے] ملک میں میڈیا اب اتنا آزاد نہیں رہا جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔”

سٹیج پر کھڑے نیڈ پرائس ایک گروپ سے باتیں کر رہے ہیں (State Dept./Jacob Williams)
دسمبر 2022 میں ایڈورڈ آر مرو پروگرام کے فیلوز دیگر رپورٹروں کے ہمراہ محکمہ خارجہ کی ریکارڈ کی جانے والی آن ریکارڈ پریس بریفنگ میں شریک ہیں۔ اوپر تصویر میں سٹیج پر ڈائس کے بائیں جانب کھڑے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس رپورٹروں کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ (State Dept./Jacob Williams)

واشنگٹن میں اس گروپ کے اراکین نے فارن پریس سنٹرکا دورہ کیا۔ اس سنٹر میں سرکاری حکام دیگر بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے رپورٹروں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔

رپورٹروں کا ایک اور گروپ جون میں مرو پروگرام میں شرکت کرے گا۔ اِن رپورٹروں کا تعلق افریقہ، ایشیا، یورپ، وسطی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک سے ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مرو پروگرام کے تحت دنیا بھر سے تقریباً 2,000 صحافی امریکی میڈیا کے اداروں کے دورے کر چکے ہیں اور اپنے امریکی ہم منصبوں سے مل چکے ہیں۔ یہ پروگرام  امریکہ کے ایک مشہور براڈکاسٹر صحافی، مرو کے نام سے منسوب ہے۔ مرو دوسری عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد صحافت کے اعلٰی معیار معیاروں کی ایک مثال تھے۔

اس پروگرم میں شامل ڈیامانکا کے دو ساتھیوں سے ملیے۔

ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کی ایلیزے اینجنڈو اوڈیا

پانی کے پاس کھڑی، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کی ایلیزے اینجنڈو اوڈیا (State Dept./Blake Bergen)
ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کی ایلیزے اینجنڈو اوڈیا 11 مئی 2023 کو سینٹ پیٹرزبرگ، فلوریڈا میں۔ (State Dept./Blake Bergen)

ایلیزے اینجنڈو اوڈیا ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں نشریاتی میڈیا میں کام کرتی ہیں۔ وہ معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں مباحثوں کی میزبانی کر چکی ہیں۔

انہوں نے واشنگٹن میں نیشنل پبلک ریڈیو کی ایک خاتون صحافی سے ملاقات کی جبکہ ایریزونا میں وہ ایک سابق صحافی سے ملیں جو اب ایک لاطینی وکالتی تنظیم کی سربراہ ہیں۔ اِن دونوں نے انہیں متاثر کیا۔

اوڈیا نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “خاتون صحافی ہونا ایک مشکل کام ہے۔ خواتین کی اظہار رائے کی آزادی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ تاہم حالات بدل رہے ہیں اور [اب] زیادہ عورتیں یہ کام بہتر طریقے سے کر رہی ہیں۔”

انہوں نے فلوریڈا میں صحافت کے شعبے کے اساتذہ کے ساتھ سوشل نیٹ ورکوں اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اثر پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے کہا کہ “ایک صحافی اور ایک متاثر کرنے والے شخص کے [درمیان فرق] کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میں سوشل نیٹ ورکوں پر کیا کر سکتی ہوں اور مجھے ویب سائٹوں پر کیا کرنا چاہیے۔”

جنوبی افریقہ کی ایانڈا میلنسی

ایانڈا ویلری میلنسی پانی کے پاس کھڑی تصویر بنوا رہی ہیں (State Dept./Blake Bergen)
جنوبی افریقہ کی ایانڈا میلنسی 11 مئی 2023 کو سینٹ پیٹرزبرگ، فلوریڈا میں۔ (State Dept./Blake Bergen)

ایانڈا میلنسی جنوبی افریقہ میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی پروڈیوسر ہیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں ڈیجیٹل دور میں میڈیا کیسے پیشہ ورانہ مسابقت کرتا ہے۔

اس پروگروام کے دوران وہ یہ جان کر متاثر ہوئیں کہ امریکہ میں عوامی ملکیت والے سٹیشن حکومت یا اشتہارات پر انحصار کیے بغیر عطیہ دہندگان سے فنڈ کیسے اکٹھا کرتے ہیں۔

میلنسی نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ امریکی میڈیا مقامی خبروں کی کوریج پر بہت زیادہ زور دیتا ہے اور ایک  “کلی طور پر مقامی” حکمت عملی شہریوں کو اپنی کمیونٹیوں کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے اور مقامی حکام کو جوابدہ ٹھہراتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اِن کی گلیاں کیوں نہیں صاف کی جا رہیں۔ اس کا جواب قومی حکومت کے پاس تو نہیں ہوتا۔”

میلنسی نے کہا کہ رپورٹروں کو اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ حکومتی اہل کار جو فیصلے کرتے ہیں وہ لوگوں پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “اس [چیز] نے میری آنکھیں کھولیں ہیں۔ ہمیں انہیں مقامی سطح پر رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔”