آفات سے نمٹنے کی اپنی مہارتیں بہتر بنانے کے لیے امریکہ اور چین کے فوجیوں نے نومبر کے مہینے میں ہیلی کاپٹر سے بچانے کے طریقوں، ملبہ صاف کرنے اور دو ملکی مواصلاتی مراکز قائم کرنے کی تربیتی مشقوں میں گزارے۔

ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ کے قریب دونوں ممالک کے سویلین اور فوجی اہلکاروں نے اپنے آپ کو مستقبل کے بحرانوں کے لیے تیار کرنے کے لیے اکٹھے کام کرتے ہوئے، مصنوعی سیلابوں سے نمٹنے کی مشقیں کیں۔ امریکہ اور چین کی آفات سے نمٹنے کے تبادلے کے 2017 کے نام سے ترتیب گئی اِن مشقوں میں فوجیوں نے بہترین عملی اور نصابی طریقوں کا تبادلہ کیا۔
یو ایس آرمی پیسیفک کمانڈ کے جنرل رابرٹ براؤن نے اسٹوریا، اوریگن کے اخبار ‘ دا ڈیلی اسٹورین ‘ کو بتایا کہ آپ تعلقات بنانے کے لیے اس وقت تک انتظار نہیں کرتے جب تک بحران نہ پیدا ہو جائیں۔ “اسی لیے یہ [مشقیں] اتنی زیادہ اہم ہیں … ہم اس لیے تعلقات قائم کرتے ہیں تاکہ جب مستقبل میں کوئی آفت آئے تو ہم اکٹھے مل کر کام کرتے ہوئے جانیں بچا سکیں۔”
دو عشرے قبل تبادلے کے پروگرام کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک سینکڑوں امریکی اور چینی اہلکار انسانی بنیادوں پر اور تباہکاریوں کے جواب میں مہیا کی جانے والی مدد کرنے کی خاطر تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس سال بنگلہ دیش، کینیڈا، جاپان، فلپائن اور سنگاپور سے تعلق رکھنے والے مبصرین نے بھی اِن مشقوں سے سیکھنے کے لیے بطور مبصر شرکت کی۔

چین نے امریکی فوجیوں کی پیپلز لبریشن آرمی کے ساتھ 2016 کے تبادلے کی یونان صوبے کے کنمنگ شہر میں میزبانی کی۔ چین کے میجر جنرل ژانگ جیانگ نے کہا، “ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ کئی برسوں کی مشقوں نے دونوں افواج کے درمیان ہمارے تبادلوں کو انسانی بنیادوں پر کی جانے والی امدادی کاروائیوں اور امدادی سامان کے شعبوں کے ہمارے تبادلوں کو گہرا بنا دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، 2030ء تک ہند- ایشیا بحرالکاہل کے تباہ کاریوں کا ممکنہ شکار ہونے والے اُن علاقوں میں ایک ارب لوگ رہ رہے ہوں گے جن میں لوگوں کو “انتہائی درجے” یا اونچے درجے” کے خطرات کا سامنا ہوگا۔ براؤن کا کہنا ہے، “سوال یہ نہیں ہے کہ آیا ہم تیار ہیں یا نہیں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ ہمیں کب تیار رہنا چاہیے۔”