
پولیو سے صحتیاب ہونے والے آنجہانی ران میس وہیل چیئر استعمال کیا کرتے تھے۔ انہوں نے یونیورسل ڈیزائن (آفاقی ڈیزائن) کی وضاحت کی اور اسے مقبول عام بنایا۔ وہ اسے “ہر وہ چیز جو ہم ڈیزائن کرتے ہیں اور بناتے ہیں اس کے ممکنہ ترین حد تک ہر ایک کے لیے قابل استعمال ہونے کو ایک عام فہم سوچ” قرار دیا کرتے تھے۔
میس ایک امریکی ماہر تعمیرات تھے۔ انہوں نے گھروں اور اپارٹمنٹوں میں ایسی سہولتوں پر زور دیا جنہیں عمر، قد، جسامت یا معذوری سے قطع نظر ہر کوئی استعمال کر سکے۔ اپنے شعبے میں چند سال کام کرنے کے بعد انہوں نے اپنی توجہ کو پھیلایا اور اُن عماراتی ضوابط کی حمایت شروع کی جن کے تحت اُن کی اپنی ریاست شمالی کیرولائنا اور دیگر ریاستوں میں تعمیر کیے جانے والے گھروں میں اوپر بیان کی گئی سہولتوں کی موجودگی لازمی قرار پائی۔ اُن کی فلاسفی نے امریکہ کی کانگریس کی عمارت ‘یو ایس کیپیٹل’ میں بنائے جانے والے ایک بڑے آرٹ سنٹر اور دیگر سہولتوں کے ڈیزائنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
میس کا یہ حمایتی کام منصفانہ رہائش کے ترمیمی قانون (1988ء) اور جسمانی معذوری کے حامل لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر پابندی لگانے والے مخففاً اے ڈی اے کہلانے والے معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون (1990ء) سے پہلے کا ہے۔
گو کہ اے ڈی اے عوامی سہولتوں سے تعمیراتی رکاوٹوں کو ختم کرتا ہے مگر میس کا آفاقی ڈیزائن کا اصول بنگلوں، نجی گھروں کے ساتھ ساتھ آسانی سے پہنے جانے والے ایتھلیٹک جوتوں یا جلد کا رنگ بدلنے والی خوبصورتی کی تمام مصنوعات پر روزافزوں اثرات مرتب کر رہا ہے۔
شاندار کامیابیاں
وہ گھر جو آفاقی ڈیزائن کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تعمیر کیے جاتے ہیں وہ زندگی کے ہر مرحلے پر، ہر ایک جگہ پر اور ہر عمر کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ میس کے نظریات دوسرے ممالک میں اور بالخصوص عمر رسیدہ آبادی والے ممالک میں بھی مقبول ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جاپان، برطانیہ، سپین، اٹلی اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی عمارتیں ڈیزائن کرنے والی کمپنیوں نے ایسے ایوارڈ یافتہ پراجیکٹ مکمل کیے ہیں جن میں آفاقی ڈیزائن کے اصولوں کو استعمال کیا گیا ہے۔
ڈینیز لیوین اور بیتھ ٹوک دونوں ماہر تعمیرات ہیں اور نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی، بفیلو میں پڑہاتی ہیں اور یونیورسٹی کے مشمولہ ڈیزائنوں اور ماحولیاتی رسائی کے مرکز میں کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں گھروں کے مالکان میں آفاقی ڈیزائن کی خصوصیات کی شمولیت کی مانگ دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اگر آفاقی ڈیزائن کو نئے تعمیر ہونے والے گھروں میں شامل کر لیا جائے تو اس سے اُس وقت گھروں میں تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑتی جب گھروں کے مالکان ضعیف ہو جاتے ہیں اور اس طرح پیسوں کی بچت ہوتی ہے۔

لیوین اور ٹوک نے ایک منزلہ مکان اور دو منزلہ مکانوں کے اندر رہائش کے لیے ایسے کھلے نقشے تیار کیے ہیں جن کے دروازوں اور راہداریوں میں سے گزرنے کے کشادہ راستے، رکاوٹوں کے بغیر غسل خانے اور دروازوں کے لیور نما دستے لگائے جاتے ہیں۔ اِن لیوروں کی وجہ سے دوروازوں کے دستوں کو پکڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مذکورہ تمام سہولتیں لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ پرانے گھروں کے بہت سے مالکان غسل خانوں میں ترمیم کی شروعات کر رہے ہیں۔ یہ مالکان گرنے سے بچنے کے لیے غسل خانے میں نہانے والے ٹب کی جگہ سیڑھیوں کے بغیر نہانے والی ہموار جگہ بنواتے ہیں، سہارے کے لیے ڈنڈے لگواتے ہیں اور پھسلنے سے بچنے کے لیے فرش کو کھردرا بنواتے ہیں۔

ٹوک نے کہا کہ آفاقی ڈیزائن کے مطابق تعمیر کیے جانے والے گھر نوجوان گھرانوں، بوڑھوں “اور ان کے درمیان کے ہر قسم کے لوگوں” کی رہائش کو آسان بناتے ہیں۔ اس میں سیڑھیاں نہیں ہوتیں جو سلامتی کے لیے اچھا ہے۔ اور ایسے گھروں کی صفائی اور دیکھ بھال بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔
موجودہ عالمگیر وبا نے بہت سارے لوگوں کو گھروں میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ لہذا آفاقی ڈیزائن کے فوائد، بالخصوص رہائشی طرز تعمیر میں، پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔