آمرانہ حکومتيں دنيا بھر ميں صحافيوں کو نشانہ بناتی ہيں

پولیس شہر کی سڑک پر بھیڑ کے بيچ ميں سے ایک شخص کو لے جارہی ہے (© Alexander Zemlianichenko/AP Images)
اگست 2019 میں پولیس نے ماسکو میں ایک رپورٹر کو حراست میں لیا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق روسی حکومت صحافیوں کو تیزی سے ہراساں کررہی ہے (© Alexander Zemlianichenko/AP Images)

آمرانہ حکومتيں اپنی حدود ميں صحافيوں اور ديگر ناقدين کو نشانہ بنانے کے ليے مشہور ہيں۔ اب نگران گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر پريس کی آزادی کو بتدريج دھمکياں دے رہے ہيں۔

فريڈم ہاؤس نے فروری 4 کی ايک رپورٹ ميں روس، عوامی جمہوريہ چين اور اور اسلامی جمہوريہ ايران ميں حکومتوں کی نشاندہی کرتے ہوۓ انھيں کليدی مجرموں کے طور پر شناخت کيا ہے۔

فريڈم ہاؤس کے صدر مائيکل جے ابرامواز نے کہا “جلا وطن دنيا بھر ميں نگرانی، حملہ يا يہاں تک کہ اغوا اور قتل کو مستقل خطرہ قرار ديتے ہيں جو ان کی آزادانہ گفتگو کرنے کی صلاحيت کو محدود کرتی ہے۔”

رپورٹ ، “آؤٹ آف سائیٹ ناٹ آؤٹ آف ریچ” [پی ڈی ایف ، 18 ایم بی] ، بین الاقوامی جبر کے 608 واقعات کو دستاویز کرتی ہے ، جن میں قتل ، اغوا ، حملوں ، نظربندی اور غیر قانونی ملک بدری شامل ہیں۔ آزادی صحافت جمہوریت کا بنیادی اصول ہے جو حکومت میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں معاون ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں ، اس لازمی حق کو امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے۔

جب ہم 3 مئی کو عالمی آزادی صحافت کا عالمی دن مناتے ہیں تو دنیا بھر میں صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ کے لئے نمایاں خطرات لاحق ہیں۔ برما میں ، یکم فروری کو فوجی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی درجنوں صحافیوں کو قید کردیا ہے۔ رپوٹرز وِٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کا کہنا ہے کہ برما میں بغاوت نے پريس کی آزاديوں کو “دس دنوں ميں دس سال” پيچھے دھکيل ديا ہے، علاوہ ازيں “صحافیوں کو دھمکیاں ، ہراساں اور سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برما کی فوجی حکومت نے “بغاوت” اور “حکومت” سمیت کچھ الفاظ پر پابندی عائد کردی ہے۔

20 اپریل کو جاری کردہ آر ایس ایف کے 2021 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ، برما بدترین خلاف ورزی کرنے والوں کی صف میں ایران ، روس ، عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) ، میں شامل ہو گيا ہے۔ 180 ممالک میں سے ، برما کا نمبر 140 ہے ، جبکہ روس ، ایران اور پی آر سی درجہ بندی ميں نچلی سطح پر ہيں: بالترتیب 150 ، 174 اور 177۔

آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ بیجنگ “بدستور نٹرنیٹ سنسرشپ ، نگرانی اور پروپیگنڈہ کو غیر معمولی سطح پر لے جا رہا ہے۔”فریڈم ہاؤس نے مزید کہا ، “چین دنیا میں بین الاقوامی جبر کی انتہائی پيچيدہ ، عالمی اور جامع مہم چلاتا ہے۔” گلچہرہ ہوجا ڈیڑھ درجن ریڈیو فری ایشیاء (آر ایف اے) صحافیوں میں سے ایک ہے جن کے رشتہ داروں کو پی آر سی نے ان کی رپورٹنگ کے جواب میں نشانہ بنایا ہے۔

جب سے ايک ايغور امريکی شہری ہوجا نے سنکیانگ میں PRC کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کرنا شروع کیا ہے ، پی آر سی حکام نے چین میں اس کے 24 رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا ہے۔ہوجا کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اپنا کام جاری رکھیں گے۔ “ہم آزاد ہیں. ہماری ذمہ داری ہے کہ عملی کارروائی کریں۔

” فریڈم ہاؤس کے مطابق ، ایران کی حکومت بھی صحافیوں کو ملک سے باہر نشانہ بناتی ہے ، بیرون ملک نامہ نگاروں کو دھمکیاں دیتی ہے ، نامہ نگاروں کے کمپیوٹرز پر سائبر حملے کرتی ہے اور ایران میں صحافیوں کے لواحقین کو گرفتار کرتی ہے۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ ماسکو کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور صحافیوں کی راہ ميں رکاوٹ “غیر معمولی اور بعض اوقات متشدد” سطح تک بڑھتی جارہی ہے۔

روس کے رہنما طلبہ صحافیوں کو گھر پر گرفتار کرتے ہیں اور ملک سے باہر صحافیوں کی نگرانی اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق ، حکومت جمہوریہ چیچن کے کریملن کے حامی رہنما رمضان قادروف کے خلاف بھی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے ، جس کی صحافیوں اور دیگر کے خلاف مہم میں تشدد اور غیر قانونی عدالتی قتل شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ، قادروف نے 2018 میں کہا ، “یہ جدید دور اور ٹکنالوجی ہمیں سب کچھ جاننے کی اجازت دیتی ہے۔” ہم آپ میں سے کسی کو بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ امريکی بانيوں ميں سے ايک بنجامن فرینکلن  نے آزادی اظہار کو “آزاد حکومت کا ایک بنیادی ستون” کہا۔ انہوں نے سمجھا کہ آزادانہ تقریر کے بغیر ، “آزاد معاشرے کا آئین تحلیل ہوچکا ہے ، اور اس کے کھنڈرات پر ظلم و بربریت قائم کی گئی ہے۔”