آمرانہ حکومتیں صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں

زمین پر لیٹے ہوئے وردیوں میں ملبوس لوگوں نے گھیر رکھا ہے (© Misha Friedman/AP Images)
صحافیوں کو آمرانہ حکومتوں کے خلاف عوامی مخالفت کے بارے میں خبریں دینے کی پاداش جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ بیلا روس کے شہر منسک میں پولیس ستمبر 2020 میں لوکاشینکا حکومت کے خلاف ایک ریلی میں شریک مظاہرین کو روک رہی ہے۔ (© Misha Friedman/AP Images)

ستمبر میں برما کی ایک عدالت نے ٹیلی ویژن کی ایک رپورٹر کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اکتوبر میں بیلاروس کے “بیلا پین “نامی خبر رساں ادارے کے جسے اب ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے چار صحافیوں کو طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ اِن میں سے ایک صحافی کو 14 سال قید کی سزا دی گئی۔ روس کے حکام نے حال ہی میں صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی یوکرین کے خلاف جنگ کی مخالفت میں دو راتوں تک ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرنے والے 18 صحافیوں کو حراست میں لیا۔

صحافیوں کا تحفظ کرنے والی کمیٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، جوئیل سائمن نے دسمبر 2021 میں جیلوں میں بند صحافیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آمرانہ حکومتیں “معلومات کو کنٹرول کرنے اور انہیں اپنے حق میں استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور وہ ایسا کرنے کی اپنی کوششوں میں دن بدن بڑھتی ہوئی ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ خبروں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا آمرانہ حکومتوں کی ایک خاص نشانی ہوتی ہے۔”

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق موجودہ سال یعنی 2022 میں اب تک 216 صحافیوں اور میڈیا ورکروں کو قید کیا جا چکا ہے۔ ایسا 2021 میں 294 صحافیوں کو جیل میں ڈالنے کے بعد ہوا ہے۔ یہ مسلسل چھٹا سال ہے کہ قید میں ڈالے گئے صحافیوں کی تعداد گزرے ہوئے سال کے مقابلے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ سرحدوں سے ماورا رپورٹروں نے بیلاروس، برما، چین، ایران، روس اور شام کو 2022 میں صحافیوں کو قید کرنے والے بدترین قانون شکنوں میں شامل کیا ہے۔

اس وقت میں 526 صحافی جیلوں میں قید ہیں۔

اقوام متحدہ 2 نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کو سزا سے استثنیٰ کو ختم کرنے کا عالمی دن مناتی ہے- یہ دن میڈیا کے کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی، ان کے خلاف جرائم اور تشدد کے خطرات کا مقابلہ کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

جن صحافیوں کو حال ہی میں جیل کی سزا سنائی گئی یا ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے ان میں مندرجہ ذیل صحافی بھی شامل ہیں:-

ہٹیٹ ہٹیٹ خائن کو برما میں  تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اُن کے وکیل نے فری لانس اور بی بی سی کی اِس سابقہ صحافی کے خلاف مقدمے کو ایک ایسا مقدمہ قرار دیا جو سیاسی بنیادوں پر اور “بغیر کسی ثبوت کے قائم کیا گیا” ہے۔

برما کی فوجی حکومت کے حکام نے فروری 2021 کی بغاوت میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے چھ ماہ بعد یعنی اگست 2021 میں خائن کو گرفتار کیا جس کے ردعمل میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ خائن کا شمار اُن 120 سے زیادہ صحافیوں میں ہوتا ہے جنہیں برما میں فوجی بغاوت کے پہلے سال میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بیلا پین نیوز ایجنسی کے صحافیوں کو 6 اکتوبر کو برسوں پر محیط قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ آندرے الیاکسندرو، ایرینا ژولوبینا، دیمتری ناوا ژیلاؤ اور ارینا لوشینا کو سنائی گئی سزائیں، جمہوریت کے حامی فعال کارکنوں، آزاد میڈیا اور عام بیلاروسیوں کے خلاف لوکاشینکا حکومت کے مکمل کریک ڈاؤن کا تسلسل ہیں۔ عوام کے خلاف یہ کریک ڈاؤن  9 اگست 2020 کو دھوکہ دہی والے صدارتی انتخابات کے خلاف ملک گیر عوامی احتجاج کے بعد شروع کیا گیا۔

روس میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے 18 صحافیوں کو 21 اور 22 ستمبر کو اُس وقت حراست میں لیا گیا جب حکام نے یوکرین کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے لیے پیوٹن کی اعلان کردہ جزوی لام بندی کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پیوٹن کے اقتدار میں آنے کے بعد کریملن نے سینکڑوں صحافیوں کو گرفتار کیا  جن میں سے 19 اس وقت بھی جیلوں میں قید ہیں۔ مزید سیکڑوں افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور 180 سے زائد میڈیا کے اداروں یا رپورٹروں کو “غیر ملکی ایجنٹ” قرار دے کر اُن پر جرمانے کیے گئےاور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

آزاد خبروں کی فراہمی میں مدد کرنا

امریکہ ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا کو ان ممالک میں آزاد خبریں فراہم کرنے کے لیے فنڈ فراہم کرتا ہے جہاں آزاد پریس کو خطرات کا سامنا ہے۔ یہ دنیا بھر کے صحافیوں کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔ اس ضمن میں دیگر کے علاوہ مندرجہ ذیل کوششیں بھی شامل ہیں:-

  • میڈیا کے کم وسائل والے اداروں یا عدم استحکام کے ماحول میں کام کرنے والے اداروں کے لیے “عوامی مفاد کے میڈیا کے بین الاقوامی فنڈ” کے لیے 30 ملین ڈالر۔
  • میڈیا کے آزاد اداروں کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے 5 ملین ڈالر۔
  • غیر منصفانہ قانونی چارہ جوئی کا نشانہ بننے والے صحافیوں کے قانونی اخراجات پورے کرنے کے لیے 9 ملین ڈالر تک کا “صحافیوں کے ہتک عزت کے مقدموں میں دفاع کرنے کا فنڈ”
  • “صحافت کے تحفظ کے ایک نئے پلیٹ فارم” کے لیے 3.5 ملین ڈالر کی رقم تاکہ خطرات سے دوچار میڈیا کے پیشہ ور افراد کو جسمانی اور ڈیجیٹل سکیورٹی کی تربیت فراہم کی جا سکے اور دباؤ کے شکار صحافیوں کی مدد کی جا سکے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آزادی اظہار رائے کی 19 ستمبر کو ہونے والی گول میز کانفرنس میں کہا کہ “آزادی اظہار، آزادی صحافت کے لیے امریکہ غیرمتزلزل عزم رکھتا ہے، اور یہ غیرمتزلزل اس لیے ہے کیونکہ یہ توانا جمہوریت کی بنیاد ہے۔”