آن لائن حملوں کا چینی نظام

چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے اہلکار اُن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کو استعمال کرتے ہوئے جن کو وہ چینی عوام کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، جارحانہ انداز سے اپنے عالمی ناقدین پر آن لائن حملے کر رہی ہے۔

28 اکتوبر کے “چین کے ‘ولف واریئر’ سفارت کار ٹوئٹر کا کس طرح غلط استعمال کر رہے ہیں” کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں، بروکنگز انسٹی ٹیوشن کا کہنا ہے کہ سی سی پی نے ٹوئٹر پر اپنی موجودگی میں حیرت انگیز طور پر اضافہ کر دیا ہے اور آن لائن جھوٹے سازشی نظریات پھیلا رہی ہے۔

ایک چینی قوم پرست فرنچائز فلم کمپنی کے نام پر رکھے گئے “ولف واریئرز” (جنگجو بھیڑیے) وہ چینی سفارت کار ہیں جو کورونا وائرس کے الزام سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا اور دیگر عوامی فورموں پر کورونا وائرس کس متعلق متصادم سازشی نظریات پھیلاتے ہیں۔ بروکنگز کا کہنا ہے کہ یہ ٹیم چینی حکومت کے انسانی حقوق کے بارے میں آن لائن ہونے والی گفتگوؤں میں مثبت پیغامات کی بھرمار کر دیتی ہے۔

جریدے “فارن پالیسی” میں 29 جون کے ایک مضمون میں آسٹریلیا کے تزویراتی پالیسی کے انسٹی ٹیوٹ کے فرگس رائن نے لکھا کہ ولف واریئرز “عالمی بحث کا رخ متعین کرنے کی اپنی کوششوں میں نفرت، طعن و تشنیع، اور سازشی نظریات” کا استعمال کرتے ہیں۔

جب امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے سی سی پی کو ایک ایسے لٹیرے سے تشبیہ دی جو ترقی پذیر ممالک میں اثرونفوذ حاصل کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو استعمال کرتی ہے تو سری لنکا میں چینی سفارت خانے نے ایک سائنسی افسانوی فلم کی ایک تصویر ٹویٹ کی۔

ٹویٹ کا ترجمہ:

سری لنکا میں چینی سفارت خانہ : وزیر خارجہ پومپیو صاحب افسوس ہے، ہم چین اور سری لنکا کے درمیان دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور ہم  خلائی مخلوق بمقابلہ لٹیرے کی کھیل کی دعوت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہمیشہ کی طرح  امریکہ ہی  دوہرا  کردار ادا کر سکتا ہے۔ 

گو کہ چینی حکومت کے اہل کار بذات خود تو سی سی پی کی پالیسیوں کے ناقدین پر حملے کرنے کے لیے ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں، مگر سی سی پی نے چین کے اندر اس پلیٹ فارم کو بند کیا ہوا ہے۔ یہ اقدام حکومت کی انٹرنیٹ کی جابرانہ سنسر شپ کی مہم کا ایک حصہ ہے۔

بروکنگز کا کہنا ہے کہ ولف واریئرز نے کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران اپنی غلط معلومات کی مہم کو تیزتر کر دیا ہے۔ مارچ میں جب یہ وائرس پھیل رہا تھا تو چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان، ژاؤ لیجیان نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس امریکہ سے شروع ہوا تھا۔

انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، “وائرس سے متعلق حالات و واقعات کے سرکاری احوال کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی خاطر، بیجنگ مختلف قسم کے سازشی نظریات پھیلانے میں مصروف ہے۔”

ژاؤ لیجیان کی اصلی ٹویٹ کو ایک درجن سے زائد چینی سفارت کاروں اور سفارت خانوں نے دوبارہ ٹویٹ کیا۔ بروکنگز کا مزید کہنا ہے کہ وائرس کے ماخذ کے بارے میں ایک جھوٹے سازشی نظریے کو “چین کا سفارتی اور سرکاری میڈیا اب تک ایک سو مرتبہ سے زیادہ پوسٹ کر چکا ہے۔”

ٹویٹ کا ترجمہ:

شنجیانگ کے بارے میں جانیے

چین کی حکومت سے منسلک میڈیا: حالیہ برسوں میں قازق خود مختار ایلائی پریفیکچر (کاؤنٹی)، شنجیانگ میں گلہ بانوں اور کسانوں کے حالات زندگی میِں بہتری آئی ہے۔ یہ مقامی حکومت کی سازگار پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

سی سی پی کے پراپیگنڈے کے ذریعے اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی چھپایا جاتا ہے۔ ٹوئٹر کے حکومتی اکاؤنٹوں میں شنجیانگ کے جغرافیائی منظر نامے اور ثقافتی تنوع کو اجاگر کیا جاتا ہے جب کہ اجتماعی نظربندی، جبری مشقت اور دیگر زیادتیوں کے ذریعے اس علاقے کے دوسرے دیگر اقلیتی گروپوں کے لوگوں اور  اکثریتی مسلمان ویغوروں پر روا رکھے جانے والے جبر کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔

سی سی پی نے عوامی جمہوریہ چین کے اندر شہریوں کی فیس بک اور دیگر بہت سے عالمی سوشل میڈیا کے فراہم کنندگان کے مواد تک رسائی کو روکنے کے لیے “گریٹ فائروال” لگا رکھی ہے۔ مزید برآں، سی سی پی ملک میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرتی ہے جس کے تحت ایسے مواد کو ڈیلیٹ کرنا یعنی ہٹا دینا لازمی ہے جسے وہ حکومت کے مفاد میں نہ سمجھتی ہو۔