آن لائن افسانوں اور حقیقت میں، حتٰی کہ جنگ کے دنوں میں بھی تمیز کرنے کے طریقے

جب کوئی ملک میڈیا کے اداروں کو کنٹرول کرتا ہے اور غلط معلومات کو ریاستی پالیسی کے طور پر پھیلاتا ہے، جیسا کہ روس کی حکومت کر رہی ہے، تو پھر جو چیز “خبر” کے طور پر نظروں سے گزرتی  ہے وہ بالعموم مسخ شدہ خبر ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگ آن لائن ایک دوسرے کے ساتھ ولاڈیمیر پوٹن کی یوکرین کے خلاف بلا اشتعال جنگ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ وہ ایسا اکثر اُس وقت کر رہے ہوتے ہیں جب واقعات رونما ہو  رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے میں یہ بتانا مشکل ہو سکتا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔

یہ  بات اس لیے بھی خاص طور پر سچ  ثابت ہوتی ہے کیونکہ کریملن نے یوکرین پر اپنے حملے سے پہلے، اس کے دوران اور بعد  اپنی غلط معلومات کی مہم اور آزاد میڈیا کی سنسرشپ میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔

 روسی ٹویٹ سے اختلاف کرنے والی پولیٹی فیکٹ ویب سائٹ کی سرخی (Politifact.com)
حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ Politifact.com سے  شہہ سرخی کا عکس جس میں کینیڈا میں روسی سفارت خانے کے ایک ٹویٹ کی “جھوٹ کے پلندے” کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔

ڈیجیٹل خواندگی کے ماہر مائیک کاول فیلڈ نے آن لائن معلومات کی جانچ کے لیے ایک طریقہ وضح کیا ہے جسے انگریزی کے الفاظ کے پہلے حروف تہجی کو لیکر مخففا سِفٹ کا نام دیا گیا ہے:

  • رکيں۔
  •  ماخذ کی چھان بین کریں۔
  • بہتر کوريج تلاش کريں۔
  • دعووں، اقتباسات اور میڈیا کا اصل سیاق و سباق کے حوالے سے کھوج لگائیں۔

انھوں نے ايم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کو بتایا کہ جب یوکرین کے بارے میں خبروں کی بات آتی ہے تو سارا زور “رکيں” پر ہونا چاہیے – یعنی جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں اس پر ردعمل ظاہر کرنے یا شیئر کرنے سے پہلے توقف کریں،

 FactCheck.org ویب سائٹ کا ایک منظر (© Jarretera/Shutterstock.com)
FactCheck.org جیسی غیرجانبدار تنظیمیں معمول کے مطابق تصدیق کرتی ہیں کہ آیا آن لائن دعوے درست ہیں یا نہیں۔ (© Jarretera/Shutterstock.com)

روسی حکومت کو غلط معلومات کی مہم چلانے کا کافی تجربہ ہے، اور اس کی غلط معلومات کی مہمات ماہرین سمیت کسی کو بھی بے وقوف بنا سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی سائٹ پر “ہمارے بارے میں” صفحے پر دیئے گئے مواد کو پڑھ کر خود ہی شرانگيز سائٹس کو سمجھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پراکسی سائٹس کے اس طرح کے صفحات پر فراہم کردہ معلومات، گمراہ کن بھی ہوسکتی ہیں۔ وہ سائٹس جو غلط معلومات پھیلانے میں ملوث ہیں وہ اپنی شناخت کو کسی غیر منفعتی یا میڈیا کے کسی ادارے سے مشابہت پیدا کر کے چھپا لیتی ہیں۔ اس لیے ویب ایڈریس یا ادارے کا نام اب اعتبار کا تعین کرنے کا ایک قابل اعتماد طریقہ نہیں رہا۔

FactCheck.org کی شریک بانی کیتھلین ہال جیمیسن نے کہا کہ لوگ آئٹمز کو “لائیک” [پسند] کرتے ہیں اور جلدی سے پوسٹ کر دیتے ہیں۔ اس لیے اُن کا صارفین کو مشورہ ہے کہ وہ پہلے اس بات پر غور کر لیا کریں کہ آیا وہ کسی پوسٹ میں موجود تمام معلومات کو معتبر سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔

 آن لائن معلومات کی ساکھ کی تصدیق کرنے کے لیے چار نکات کے برابر بنے باکسز پر نشان لگاتا ہوا ہاتھ (State Dept./M. Gregory. Image: © Pasuwan/Shutterstock.com)
(State Dept./M. Gregory)

2018 کے ایک مطالعہ میں، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے ٹویٹر پر سرگرمی کی جانچ کی اور درج ذيل نتائج اخذ کيے:

• جھوٹی کہانیاں سچی کہانیوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ  دوبارہ ٹویٹ کی جاتی ہیں۔

• جھوٹی کہانیاں سچی کہانیوں سے چھ گنا زیادہ تیزی سے 1,500 لوگوں تک پہنچتی ہیں۔

• ہر سطح پر منفرد صارفین کی طرف سے جھوٹی کہانیوں کو سچی کہانیوں سے زیادہ دوبارہ ٹویٹ کیا جاتا ہے۔

تصدیق کريں، تصدیق کريں، تصدیق کريں

ماہرین کا کہنا ہے کہ تھوڑی سی کوشش سے کوئی بھی شخص آن لائن خبریں شیئر کرنے والا ایک سمجھدار شخص بن سکتا ہے۔سٹینفورڈ یونیورسٹی نے حال ہی میں نیبراسکا کے ثانوی سکول کے 500 طلباء کو آن لائن ذرائع کی ساکھ کی تصدیق کرنے کا طریقہ سکھایا۔ طالب علموں نے دیگر معروف اور قابل اعتماد سائٹس کا جائزہ لے کر کسی غیر معروف سائٹ سے معلومات کی تصدیق کرنا سیکھا۔ نیوز ایڈیٹرز اصل ذرائع اور ہم مرتبہ سائٹس کا جائزہ لے کر حقائق کی جانچ کی اسی طرح کی مشق کرتے ہیں۔

پروفیسر اور غلط معلومات کی شناخت کی ماہر، کیٹ سٹار برڈ نے صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ دوبارہ شیئر کرنے سے پہلے ابتدائی ٹویٹ سے آگے دیکھیں۔ “وہ چند ہفتے یا مہینے پہلے کیا ٹویٹ کر رہے تھے؟ یقینی بنائیں کہ وہ وہی ہیں جو وہ کہتے ہیں کہ وہ ہیں۔”