مستقبل قریب میں، جیسے جیسے پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے شور کی جگہ بجلی سے چلنے والی کاروں کی نغمگی لیتی جائے گی، شہروں کی سڑکوں کا نقشہ بدلتا جائے گا۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق، شکاگو، سنگاپور اور لندن میں 2030ء تک، دوتہائی تک گاڑیاں بجلی سی چل رہی ہوں گی۔
اس کی کیا وجوہات ہیں؟ ان کی وجوہات میں برقی کاروں کی ٹیکنالوجی کی کم ہوتی ہوئی لاگت، آلودگی کم کرنے کی خاطر زیادہ سخت ضابطوں کا نفاذ، اور تمام برقی گاڑیوں میں روز بروز”نئی جدتیں”، شامل ہیں۔
بلوم برگ نیو انرجی فائنانس اینڈ کنسلٹنگ فرم، میکنزی اینڈ کمپنی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، “گاڑیوں کے شعبے کا آنے والا دور اس کے ماضی سے قطعی طور پر مختلف ہو سکتا ہے۔”

برقی کاروں کی فروخت میں تیزی کیوں آ رہی ہے؟
- لیتھیئم-ای اون بیٹریوں کی لاگت میں، جن سے آج کل برقی کاریں چلتی ہیں، 2010ء سے اب تک 65 فیصد کمی آئی ہے اور اگلے دس برسوں میں ان بیٹریوں کی قیمت آج کے مقابلے میں کم ہو کر ایک تہائی رہ جائے گی۔
- چارجنگ سٹیشنوں جیسے بجلی کے بنیادی ڈھانچوں کی سہولتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور شہروں میں زیادہ آلودگی والے علاقوں کو “کم آلودگی والے علاقے” قرار دیئے جانے سے شہروں کے طرزِ زندگی میں پہلے ہی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
- اگرچہ فی الحال بجلی کی کاروں کی قیمتِ خرید بہت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے، تاہم ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے مسابقت کی حوصلہ افزائی کی خاطر اپنی کمپنی کے پیٹنٹوں کو سب کے لیے عام کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی کمپنیاں، جی ایم اور فورڈ جیسی کار کمپنیوں کے ساتھ مل کر، برقی کاریں تیار کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گھنی آبادیوں اور اچھی آمدنیوں والے شہروں میں یہ تینوں عوامل کارفرما ہیں جن کی بدولت اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے شہروں میں سب سے پہلے سڑکوں پر برقی گاڑیوں کی اکثریت نظر آنے لگے گی۔
برقی کاروں کے لیے فیصلہ کُن وقت کب آئے گا؟
توانائی کی کمپنی، بی پی کے چیف اکانومسٹ، سپینسر ڈیل کا کہنا ہے کہ کیوںکہ لوگوں کی ترجیحات کے بارے میں پیشگوئی کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے “برقی کاریں کسی بھی وقت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتی ہیں۔”