آپ ایک فلم دیکھنے آئے ہوئے ہیں اور ہالی وڈ کی حالیہ ترین اور مقبول ترین فلم سے لطف اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ آپ کی تفریح کے لیے بہترین اداکاروں، ہدایت کاروں، اور کہانی نویسوں نے اکٹھے مل کر محنت کی ہے۔

غالباً ایک چیز آپ نہیں جانتے: ہو سکتا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سٹوڈیو کو کرداروں میں ردو بدل کرنے، فلمی مناظر کو تبدیل یا ختم کرنے حتٰی کہ پوری کہانی کو بدل دینے پر مجبور کیا ہو۔

چین میں چاہے کوئی اخبار ہو، ٹیلی وژن شو ہو حتٰی کہ آپ کی سوشل میڈیا کی پوسٹ ہوں، آپ جو کچھ بھی شائع کرتے ہیں، حکومت اسے سنسر کرتی ہے۔  یہاں کسی بھی چیز کو دبایا جا سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں بنائی جانے والی فلمیں بھی اس سنسر شپ سے محفوظ نہیں۔

چین کے سنسرشپ کے قوانین مبہم ہیں اور انہیں متضاد طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے۔ چین مخالف دکھائی دینے والی کسی بھی چیز پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ایسے مواد پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے جو سنسر کے  سماجی اخلاقیات کے من پسند چینی نظریے کی خلاف ورزی کرتا ہو یا کوئی ایسا مواد ہو جسے سنسر حکام کسی بھی لحاظ سے چینی مفادات کے خلاف سمجھتے ہوں۔

چین کا سنسر فلم بنانے والے سٹوڈیو کو تفصیلات تبدیل کرنے، کرداروں میں رد و بدل کرنے، اور کہانی کے اہم نکات کو از سرِ نو لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

نائب صدر پینس نے 2018ء میں ایک تقریر میں کہا، “چین اکثر ہالی وڈ سے یہ مطالبہ کرتا رہتا ہے کہ وہ بہرصورت چین کو مثبت انداز سے پیش کرے۔” بیجنگ اپنی اقتصادی برتری اور منڈیوں کی کشش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، کاروباروں پر اپنے اثر و رسوخ کو بڑہانے کے لیے یہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔”

چینی سنسر شپ کی شکل کیسی ہے؟ نئے لوگوں کی بات کی جائے تو اگر آپ کے مسودے میں تبت یا تائیوان شامل ہیں تو اسے ازسرِنو لکھنے کے لیے تیار رہیے۔ بصورت دیگر چین میں آپ کی فلم پر پابندی لگا دی جائے گی۔ 1986ء میں بننے والی “ٹاپ گن” فلم میں ٹام کروز نے اپنے فلمی کردار میں چمڑے کی جو جیکٹ پہنی ہوئی تھی اُس پر جاپان اور تائیوان کے جھنڈوں والے بیج لگے ہوئے تھے۔ اِس فلم کی بعد میں آنے والی ورژن [شکل] میں لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھنڈے ہٹا دیئے گئے۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

مارک میک کینن

ٹاپ گن کی ایک نئی فلم نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔  اِس [کے کردار] ‘ میورِک  ‘نے پہلے والی جیکٹ ہی پہنی ہوئی ہے –  تاہم اس مرتبہ  فرق صرف یہ ہے کہ اس کی منظوری چین کی کمیونسٹ پارٹی نے دی ہے اور اب اس پر لگے جاپانی اور تائیوانی جھنڈوں والے بیج غائب ہیں۔ ویب سائٹ پر دیئے گئے سکرین شاٹ نئے ٹریلر سے لیے گئے ہیں۔

اسی طرح ‘مارول’ کمپنی کی کارٹونوں کی کتاب ‘ ڈاکٹر سٹرینج‘ کے مداح  بھی اس وقت حیران ہوئے جب انہوں نے1963ء میں تخلیق کیے جانے والے ‘ دا اینشینٹ ون’ نامی تبتی کردار کو 2016ء کی ایک فلم میں کسی نہ کسی طریقے سے برطانیہ کا ‘سیلٹک’ بنا ہوا دیکھا۔

Thanks to China, the Ancient One’s now Irish.

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

دا اینشینٹ ون نامی [اصلی] کرادر انگریز عورت کی شکل میں نہیں تھا۔ تو پھر اس کا کردار انگریز عورت کیوں ادا کر رہی ہے۔

کسی ثقافتی پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے ایک مصنف نے بتایا، “اگر آپ یہ تسلیم کرلیں کہ تبت ایک جگہ ہے اور وہ یعنی اینشنٹ ون تبتی ہے تو آپ اس بات کے کہے جانے کا خطرہ مول لے رہے ہوتے ہیں کہ ‘کیا آپ کو علم ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں دیکھنے والے ممالک میں [چین کا] شمار ہوتا ہے؟ ہم آپ کی فلم نہیں دکھائیں گے کیونکہ آپ سیاست کو بیچ میں لے آئے ہیں۔’ ”

لاس اینجلیس ٹائمز لکھتا ہے کہ 2012ء میں بننے والی فلم ‘ ریڈ ڈان’ میں چینی جھنڈے کو ڈیجیٹل طریقے سے تبدیل کر کے شمالی کو ریا کا جھنڈا بنا دیا گیا۔

ایم جی ایم کے عالمی منڈی کے انتظامی نائب صدر، مائیک وول نے اخبار لاس اینجلیس ٹائمز کو بتایا، “ایم جی ایم ‘ ریڈ ڈان ‘ کے ہدایت کار اور فلم ساز کے ساتھ کام کرتی چلی آ رہی ہے جس کا مقصد تجارتی بنیادوں پر دنیا بھر میں شائقین کے لیے اس فلم کا سب سے زیادہ قابل قبول ورژن تیار کرنا ہے۔”

پینس نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی اُن “سٹوڈیوز اور فلمسازوں کو سزا دیتی ہے” جو چین کی مثبت تصویر پیش نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا، ” اگر کسی فلم میں چین پر تنقید کی گئی ہو، چاہے کتنے ہی نرم انداز سے ہی سہی، تو بیجنگ کے سنسر حکام  تیزی سے یا تو فلم کی ایڈٹنگ کرتے ہیں یا اِس کی نمائش کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں۔”

یہ مضمون اس سے قبل 13 ستمبر 2019 کو ایک مختلف شکل میں شائع کیا جا چکا ہے۔