ہاتھوں میں آَئینہ اور پتے اٹھائے دیوار کے سامنے کھڑے تین افراد۔ (© Courtesy of The Abrahamic House)
لاس اینجلس میں ابراہیمک ہاؤس کے مکین اپریل 2020 میں یہودی تہوار "پاس اوور" منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بائیں سے دائیں: علاء خان (مسلمان)، ہدار کوہن (یہودی) اور جوناتھن سمکوسکی (عیسائی)۔ تصویر لینے والی مایا منصور (بہائی) کا عکس تصویر میں دکھائی دے رہا ہے۔ (© Courtesy of The Abrahamic House)

یکم ستمبر کو چار نوجوان افراد واشنگٹن میں اپنے نئے گھر میں رہنے کے لیے باورچی خانے کے برتن، کتابوں اور دیگر سامان کے ڈبے اٹھائے داخل ہوں گے۔ یہ منظر اُن مناظر سے ملتا جلتا ہے جوایک ایسے وقت میں پورے ملک میں دیکھنے میں آ رہے ہیں جب طلبہ نئے تعلیمی سال کا آغاز کرنے اور حالیہ گریجوایٹ اپنی پہلی ملازمت شروع کرنے جا رہے ہیں۔

لیکن یہ چار محض ایک جگہ رہنے کے لیے نہیں جا رہے۔ انہیں اپنی روزمرہ زندگیوں میں مصروف رہتے ہوئے، ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنے کے لیے کرائے کے ایک مکان میں اکٹھا رہنے کے لیے ایک فیلوشپ دی گئی ہے۔ کرائے کی ادائیگی میں ان کی مدد کی جائے گی۔ اس گروپ کا ہر فرد چار مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت، اسلام یا بہائی مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کا ماننے والا ہے۔

یہ چاروں ایک  “ابراہیمک ہاؤس” [ابراہیمی گھر] میں منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ خیال محمد السماوی کے ذہن کی تخلیق ہے۔ اس قسم کا یہ دوسرا گھر ہے۔ وہ اس طرح کا پہلا گھر 2020 کے اوائل میں لاس اینجلیس میں کھول چکے ہیں۔

ابراہیمک ہاؤس کی فیلو شپس  21 سے 35 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کے لیے مختص ہیں جو بین المذاہب گفتگو اور تقریبات کی میزبانی سے پہلے وسیع تیاری کے عمل سے گزرتے ہیں۔

 تین عورتیں اور ایک آدمی کرسمس ٹری کے سامنے اور چیڑھ کے مخروطی پھل کے درمیان اور پتوں پر رکھی موم بتیوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ (© Courtesy of The Abrahamic House)
لاس اینجلس ابراہیمک ہاؤس کے مکین کرسمس کی سجاوٹوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بائیں سے دائیں: ہدار کوہن، علاء خان، مایا منصور اور جوناتھن سمکوسکی۔ (© Courtesy of The Abrahamic House)

عمومی معلومات کے لیے فیلوز کسی ایسی جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے اپنے مذہبی ورثوں پر گفتگو کرتے ہیں اور جامع انداز سے اپنی توقعات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کی تربیت اسلام کے خلاف نفرت، یہود مخالفت اور سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی جیسے مشکل موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ السماوی کہتے ہیں کہ اس میں شامل بحث کا تعلق ان سوالوں سے ہوتا ہے کہ مذہبی تعصب کیسے ابھر سکتا ہے اور “صحت مندانہ، محفوظ اور مثبت ماحول” کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

ابراہیمک ہاؤسوں کے مکین مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو پروان چڑہانے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر  تقاریب منعقد کرتے ہیں۔

لاس اینجلس ہاؤس کے قیام کے فورا بعد کووڈ- 19 کی وبا کے پھوٹ پڑنے کی وجہ سے، اس کے مکینوں نے آن لائن، ورچوئل پروگراموں کا اہتمام کیا۔ انہیں اور واشنگٹن کے فیلوز کو توقع ہے کہ شخصی طور پر شرکت کرنے والے پروگرام بہت جلد شروع کر دیئے جائیں گے۔ ورچوئل پروگراموں میں فرانس، سعودی عرب اور اسرائیل تک سے لوگوں نے شرکت کی۔

لاس اینجلس میں ابراہیمک ہاؤس آن لائن افطار، صبات اور ایسٹر کے کھانوں؛  بہائی عبادت؛ سماجی انصاف اور بین المذاہبی مسئلوں؛ اور فلم کی نمائش کی میزبانی کر چکا ہے۔

ان پروگراموں کے شرکاء اکثر السماوی کو بتاتے ہیں کہ انہیں نے دیکھا ہے کہ دوسرے عقائد کے بارے میں دقیانوسی تصورات درست نہیں ہوتے۔ اور انہوں نے یہ بھی جانا ہے کہ آن لائن  میل جول ابراہیمی مذاہب کے اُن پہلووں کو اجاگر کرتا ہے جو ان سب  مذاہب میں ایک جیسے ہیں۔ السماوی کا کہنا ہے، ” آخر میں نہ صرف ابراہیمی مذاہب بلکہ  تمام مذاہب، اتحاد، سالمیت اور خدمت کے ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔”

شخصی نشو و نما

ایک دہائی قبل جب السماوی اپنی عمر کے بیس پجیس کے پیٹے میں تھے تو وہ ایک بین المذاہبی کانفرنس میں شرکت کے لیے سراییوو گئے۔ آج وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے۔ السماوی کا بنیادی تعلق یمن سے ہے۔ اپنے اسلامی عقیدے اور دیگر مذاہب کے بارے میں پکے نظریات لیے وہ بڑے ہوئے۔

 محمد السماوی (© Courtesy of The Abrahamic House)
محمد السماوی (© Courtesy of The Abrahamic House)

ایک قدامت پرست طبقے میں پرورش پانے والے السماوی کو اس وقت حیرت ہوئی جب وہ ایسے مسلمانوں سے ملے جو عربی نہیں بولتے تھے اور ایک ایسی خاتون سے ملے جس نے کبھی بھی حجاب نہیں لیا تھا۔

اپنے ملک واپس آنے کے بعد السماوی نے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مکالمے کو فروغ دیا۔ مگر بین المذاہب کی قدروقیمت پر اُن کے یقین کی پذیرائی نہ کی گئی۔ انتہاپسندوں کی جانب سے انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں جس کے نتیجے میں وہ انہوں نے اپنا ملک چھوڑ دیا اور انہیں بالآخر امریکہ میں پناہ گزین کی حیثیت مل گئی۔

السماوی کہتے ہیں کہ بین المذاہب افہام و تفہیم کا تعلق کسی کا مذہب  تبدیل کرنے سے نہیں ہے۔ “اس کا تعلق ‘میرے مذہب کے آپ کے مذہب سے بہتر ہونے سے نہیں ہے،’ یا کسی قسم کے سیاسی ایجنڈے سے نہیں ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ ہر ایک فرد کا ہمدردی، تفہیم اور احساس پیدا کرنے کا ایک سفر ہے۔”

امریکہ کے موشے ہاؤس میں ایک اجتماع سے خطاب کے بعد، السماوی نے موشے ہاؤس کے بانی ڈینیل سیگلمین سے ملاقات کی۔ موشے ہاؤس کا شمار دنیا میں قائم درجنوں ایسے ہی موشے ہاؤسوں میں ہوتا ہے جہاں یہودی تقریبات کے انعقاد کے بدلے میں نوجوان یہودیوں کو رہنے کے لیے سستی جگہ فراہم کی جاتی ہے۔

السماوی نے سیگلمین کو بتایا کہ وہ موشے ہاؤس کی طرز پر ایک بین المذاہب ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں  سیگلمین نے رہنمائی کی پیشکش کی۔

ایسے میں جب السماوی کا سماجی تبدیلی کے لیے “کثیرالعقائد انکوبیٹر” واشنگٹن تک پھیل چکا ہے، وہ کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے ایک دن آئے گا جب امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے ہر ایک ریاست میں ایک ابراہیمک ہاؤس موجود ہوگا۔ وہ دوسرے ممالک میں بھی ابراہیمک ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں مراکش، ترکی، اور جرمنی سے اس کے لیے درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔