
روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی یوکرینی علاقوں کو ضم کرنے کی کوششیں غیرمعمولی طور پر مانوس دکھائی دیتی ہیں۔ وہ یہ کام اِن علاقوں میں رہنے والے روسی بولنے والوں کے تحفظ کی آڑ میں کر رہے ہیں۔
ماسکو وہی پٹی پڑھنے جا رہا ہے جو روس نے 2014 میں تب پڑھی تھی جب اُس نے کریمیا پر حملہ کرکے مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔
جیسا کہ روس نے 2014 میں کریمیا میں کیا تھا اُسی طرح اِس نے یوکرین کے ان چار علاقوں میں میونسپل اور علاقائی سطح کے کلیدی عہدوں پر پیوٹن کے حامیوں کو تعینات کیا جہاں روسی افواج نے جزوی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اِن علاقوں میں اجتماعی طور پر ڈونباس کا علاقہ کہلانے والے ڈونیٹسک اور لوہانسک کے صوبے، اور کھیرسان اور زاپوریژا کے مشرقی صوبے شامل ہیں۔
اور 2014 میں بالکل کریمیا کی طرح روس نے ستمبر میں اِن صوبوں میں جھوٹے ریفرنڈموں کا ڈھونگ رچایا جن میں ووٹروں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ کریملن نے یہ دعوٰی کرنے کے لیے کہ روس کے زیر کنٹرول علاقے کے ووٹر روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں جعلی نتائج کو استعمال کیا اور ان چار یوکرینی علاقوں کو ضم کرنے کی کوشش کی۔
مگر ریفرنڈم قطعی طور پر نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ تھے۔ روس نے انتخابات کی نگرانی کے لیے پیوٹن کے وفادار اہلکار تعینات کیے اور یوکرین کے شہریوں کو مسلح گارڈوں کی نگرانی میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا۔ دنیا نے ماسکو کے اقدامات کی بڑے پیمانے پر مذمت کی۔
ماسکو کے 2014 میں کریمیا میں استعمال کیے گئے ہتھکنڈوں کی تاریخ اس سے بھی پیچھے تک جاتی ہے۔
مالدووا: 1992

کریملن سوویت یونین کا حصہ رہنے والے پڑوس کے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ قائم کرنے کے لیے اسی طرح کے حربے استعمال کر چکا ہے۔
مالدووا کی مثال کو دیکھیے۔
گو کہ مالدووا نے 1991 میں سوویت یونین سے آزادی حاصل کر لی تھی اس کے باوجود 1992 سے تقریباً 1500 روسی فوجی ٹرانسنیسٹریا کے الگ ہونے والے علاقے میں مالدووا کی سرزمین پر تعینات چلے آ رہے ہیں۔ یہ وہ سال ہے جب مالدووا کی حکومت اور علاقے میں رہنے والے اُن لوگوں کے درمیان جنگ بندی ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ وہ مالدووا سے الگ ہونا اور ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرانسنیسٹریا میں روسی بولنے والے لوگوں نے مالدووا کی حکومت کے رومانیائی زبان کو ملک کی سرکاری زبان بنانے سمیت بہت سے اقدامات کی مخالفت کی۔ روس کی فوج نے ٹرانسنیسٹریائی فریق کی حمایت میں مداخلت کی اور اس کے فوجی تب سے وہاں موجود ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے وِل بومگارڈنر نے ستمبر میں لکھا کہ “ٹرانسنیسٹریا کی عملی آزادی مالدووا کو مغربی اتحاد کے ڈھانچے میں شامل ہونے سے روکتی ہے اور اسے روس کے اثر و رسوخ کے دائرے میں رکھے ہوئے ہے۔”
جارجیا: 2008

روس کی افواج نے اگست 2008 میں جارجیا پر حملہ کیا۔ اس حملے سے پہلے ماسکو نے ایک سائبر حملہ کیا اور گمراہ کن معلومات کی ایک مہم چلائی۔ یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو ماسکو نے یوکرین میں استعمال کیے ہیں۔
روس نے جارجیا کی حکومت پر اُن شہریوں کے خلاف سنگین جرائم کا مرتکب ہونے کا جھوٹا الزام لگایا جو ماسکو کے کہنے کے مطابق جارجیا کے جنوبی اوسیشیا کے علاقے میں رہنے والے روسی تھے۔ ماسکو نے کہا کہ وہ نسل کشی کو روکنے کی خاطر مداخلت کر رہا ہے۔ روس نے یوکرین میں بھی اسی طرح کے استدلال کو استعمال کیا۔
روس اور جارجیا نے اگست 2008 میں جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس وقت ماسکو نے کہا تھا کہ وہ جارجیا کے زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلا لے گا۔ مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا۔
اس کےبرعکس روس نے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کی نام نہاد آزادی کو تسلیم کیا۔ روس کے فوجی دستے آج بھی جارجیا کے ان علاقوں میں موجود ہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے برائن وٹمور نے اگست 2021 میں لکھا کہ “اگست 2008 کا جارجیا پر حملہ روس کی پڑوسیوں کے خلاف مستقبل میں کی جانے والی جارحیت کا ایک تجربہ تھا اور اُن ہتھکنڈوں اور حکمت عملیوں کی ریہرسل تھی جن پر بعد میں یوکرین پر 2014 کے حملے میں عمل کیا جانا تھا۔”
روس کی فوج کی مظالم ڈھانے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اِس نے 2008 میں جارجیا، 2014 میں کریمیا اور مشرقی یوکرین میں اور 24 فروری کے حملے کے بعد سے پورے یوکرین میں شہریوں کو قتل اور زخمی کیا۔
نہ تو اقوام متحدہ نے ٹرانسنیسٹریا، ابخازیا یا جنوبی اوسیشیا کو آزاد ممالک کے طور پر تسلیم کیا ہے اور نہ ہی امریکہ سمیت بہت سے ممالک نے انہیں تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح دنیا کی حکومتیں روس کی جانب سے یوکرین کے اُن علاقوں کے الحاق کو نہیں مانتیں جن کے الحاق کی روس کوشش کر رہا ہے۔