
اگر آپ ایران میں ہیں تو غالبا آپ یہ تحریر نہیں پڑھ سکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی حکومت نے حالیہ دنوں میں تقریبا مکمل طور پر اپنے شہریوں پر انٹرنیٹ کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔
کیوں؟ آپ کو اس کے لیے ایرانی حکومت سے پوچھنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا تعلق پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے ایرانی شہریوں کے احتجاجوں سے ہو۔ رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای نے احتجاج کرنے والوں کو “بدمعاش” قرار دیا۔ وال سٹریٹ جرنل نے فارس نیوز جیسی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایرانی حکومت کم ہوتے ہوئے معاشی مواقعوں اور بدعنوانی کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کو کمزور بنانے کی خاطر انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ حالیہ رپورٹوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے حکومت نیٹ ورکوں کو مرکزی شکل دے رہی ہے۔
ایرانی عوام اس کے باوجود حکومتی پابندیوں کو جُل دے رہے ہیں جسے بعض لوگ ڈیجیٹل لچک کا نام دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ تک رسائی پر نظر رکھنے والی ‘نیٹ بلاکس’ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت ملک میں انٹرنیٹ کی کنیکٹیوٹی یعنی جڑت کو عام سطح کے مقابلے میں پانچ فیصد سے بھی کم سطح پر لے آئی ہے۔ اس کے باوجود ایرانی اب بھی اپنے احتجاجوں کی تصویریں اور وڈیوز آن لائن حاصل کر رہے ہیں۔ بلومبرگ کے مطابق وہ آن لائن نیٹ ورکوں اور بعض اوقات سیٹلائٹوں کے ذریعے انٹرنیٹ کنکشن یا انٹرنیت کی سروس فراہم کرنے والوں سے فائدہ اتھاتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔
دا نیویارک ٹائمز کے مطابق پٹرول کی قیمت میں اضافے پر اُن سے مشورہ نہ کیے جانے کی وجہ سے کم از کم ایرانی پارلیمنٹ کے دو اراکین استغفے دے چکے ہیں۔
ایک طرف ایرانی عوام مصیبتیں جھیل رہے ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر میں ایرنی حکومت دہشت گردی کی مالی مدد کر رہی ہے۔
