اختلاف رائے کو خاموش کرانے کے لیے ایرانی حکومت کا ناقدین کے رشتہ داروں کو نشانہ بنانا

انسانی حقوق کے حامی گروپوں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت ملک کے اندر اور بیرونی ممالک میں ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش میں سرگرم سیاسی کارکنوں کے رشتے داروں کو قید میں ڈال رہی ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کے مرکز (سی ایچ آر آئی) کے مطابق جولائی میں حکومت نے مشہور حکومتی ناقد، مسیح علی نژاد کے بھائی علی رضا علی نژاد  کو من گھڑت الزامات کے جرم میں آٹھ سال قید کی سزا دی۔

سی ایچ آر آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ہادی غائمی نے 16 جولائی کو ایک بیان میں کہا،”ایران سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کے خاندانوں کو نشانہ بناتا ہے (اور) حکومتی ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے انہیں دھمکیاں دیتا ہے۔ جھوٹے الزامات کے تحت قائم کیے گئے مقدمات کی عدالتی کاروائیاں ایسے چلائی جاتی ہیں جن کا منصفانہ عمل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔”

مسیح علی نژاد امریکہ میں رہتی ہیں۔ وہ اکثر حکومت کے اُس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہتی ہیں جس کے تحت عورتوں کے لیے حجاب پہننا لازمی ہے۔ ایران کی عدلیہ نے اِن کے بھائی کو “قومی سلامتی کے خلاف اکٹھا ہونے اور ملی بھگت کرنے،” ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے،” اور “رہبر اعلٰی کی توہین کرنے” کے الزامات کا مجرم قرار دیا.

ایران کے لیے امریکی نمائندے، برائن ہُک کہتے ہیں کہ اس مقدمے کا تعلق انصاف سے نہیں بلکہ انتقام سے ہے۔

ہُک نے 21 جولائی کو کہا، “علی رضا علی نژاد کو آٹھ سال قید کی سزا اس لیے دی گئی کیونکہ اُن کی بہن، مسیح ملاؤں کے ظلم کے خلاف بولتی ہیں۔ آج، ہم علی رضا کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

 سٹیج پر کرسی پر بیٹھی ایک عورت تقریر کر رہی ہے (© Mike Coppola/Getty Images)
اپریل 2019 میں مسیح علی نژاد نیویارک میں ایرانی حکومت کے حجاب کے بارے میں قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ (© Mike Coppola/Getty Images)

علی نژاد کی گرفتاری کے فوراً بعد سی ایچ آر آئی اور  انسانی حقوق کے ‘ہیومن رائٹس واچ’ نامی گروپ نے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے اُن کے اہل خانہ کو نشانہ بنانے پر ایرانی حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے 2 اکتوبر 2019 کو ایک خط جاری کیا۔

دونوں گروپوں نے کہا، “یہ گرفتاریاں اُن دھمکیوں اور ہراسگیوں کے نمونوں پر مکمل طور پر پورا اترتی ہیں جن پر ایرانی حکام ایران کے اندر اور ایران سے باہر منحرفین اور سول سوسائٹی کے متحرک اراکین کو خاموش کرانے کے لیے عمل کرتے ہیں۔”

سی ایچ آر آئی کے مطابق ایرانی حکومت نے اپریل 2020 میں ناول نگار حامد نامجو کو اُن کے تحریری مواد اور بیرون ملک اس کی اشاعت کی وجہ سے ایک سال قید کی سزا دی۔ سی ایچ آر آئی کا مزید کہنا ہے کہ فیصلے میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ وہ امریکہ میں رہنے والے مشہور ایرانی موسیقار، محسن نامجو کے بھائی ہیں  جو ایک “مفرور منحرف اور انقلاب مخالف گلوکار ہے۔”

امریکی محکمہ خارجہ کی سال 2019 کی انسانی حقوق کی سرگرمیوں پر انفرادی ملک کی رپورٹوں کے مطابق، 2019ء میں ایرانی حکومت نے انسانی حقوق کی ایرانی وکیل، نسرین ستودے کے خاوند کو چھ سال قید کی سزا دی۔ رضا خاندان کو اپنی بیوی کی حمایت کرنے کے بعد “نظام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے” کا مجرم قرار دیا گیا۔ اُن کی بیوی حکومت کے پردے کے لازمی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی عورتوں کا عدالت میں دفاع کرنے کی پاداش میں جیل میں 30 برس سے زائد قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔

جیل میں قید ایرانی فلمساز محمد نوریزاد کے بیٹے کو یوکرین کے مسافربردار طیارے کے حکومت کی طرف سے مار گرائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے پر اپریل میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم نوریزاد کی بیوی نے سی ایچ آر آئی کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ اُن کے بیٹے، علی نوریزاد پر مقدمہ چلانے کا مقصد اُن کے خاوند پر دباؤ ڈالنا ہے۔

ایران کے رہبر اعلٰی سے استغفیٰ کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے محمد نوریزاد جیل میں ہیں۔

مارچ 2020 میں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اِس خدشے کی بات کی کہ ایرانی حکومت بی بی سی کے اخباری نامہ نگاروں کے اہل خانہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں، “ایرانی حکام کی طرف سے اُن کے ایران میں رہنے والے خاندانوں کو ہراسگیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بعض لوگوں کے سلسلے میں اُن کے اہل خانہ کو آزادی سے محروم کر دیا گیا اور ہتک آمیز حالات میں قید میں رکھا گیا، اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے کہیں کہ وہ بی بی سی کے لیے کام کرنا بند کر دیں۔”