اس سال دنیا بیونس آئرس میں یہودی کمیونٹی سنٹر کو بم دھماکے سے اڑانے کی 25ویں برسی منا رہی ہے۔ اس دھماکے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور یہ بات سامنے آئی کہ ایرانی ریاست کی دہشت گردی کی سرپرستی کی پہنچ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
18 جولائی 1994 کو ایرانی حکومت کی پشت پناہی میں حزب اللہ کے کے ایک خود کش بمبار نے بارود سے بھری ہوئی ایک وین کو ارجنٹینا کی باہمی امداد کی یہودی سوسائٹی (ے ایم آئی اے) کی عمارت سے ٹکرا دیا۔ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے 85 افراد میں عمارت کے قریب سے اپنی والدہ کے ساتھ گزرنے والا پانچ سالہ بچہ سیبسٹین باریرو اور اُس کا والد مارٹن فیگورو بھی شامل تھے۔ مارٹن عمارت کے اندر کام کر رہا تھا۔ وہ چھ بچوں کا والد تھا۔ اس دھماکے میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
19 جولائی کو وزراء کی مغربی نصف کرہ ارض میں انسداد دہشت گردی کی دوسری کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ یہ دھماکہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی حزب اللہ سے مغرب میں لاحق خطرات “خیالی نہیں ہیں۔ یہ نظریاتی نہیں ہیں۔ آج ہم میں سے ہر ایک کے لیے دہشت گردی کا یہ خطرہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔”
اس حملے کے لیے ایرانی حکومت کی انقلاب اسلامی کی سپاہ نے مالی اور انتظامی مدد فراہم کی۔ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے اس سے دو سال قبل بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے پر بھی بموں سے حملہ کیا تھا جس میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دھماکے کی 25ویں برسی کے موقع پر ارجنٹینا کی مالیات کے بارے میں معلومات کے یونٹ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا۔ امریکہ 1997 میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نامزد کر چکا ہے۔ پومپیو نے حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم نامزد کرنے کے ارجنٹینا کے فیصلے کی تعریف کی۔ انہوں نے 18 جولائی کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “دنیا حزب اللہ کو اس طرح پہچان رہی ہے جیسی کہ وہ ہے — یعنی یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دہشت گرد آلہ کار ہے۔”
اس وزارتی کانفرنس کا اُن بہت سی تقریبات میں شمار ہوتا ہے جن میں اے ایم آئی اے کی عمارت کے بم دھماکے کے متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت سے [دہشت گردی کے] ذمہ داروں کی پشت پناہی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پومپیو نے اس کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ “اے ایم آئی اے کے دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ انصاف کی خاطر، امریکہ ایک بار پھر اپنے عزم کا اظہار کر رہا ہے۔”

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک، ولسن سنٹر میں حال ہی میں ہلاک شدگان کی یاد منانے کی ایک تقریب میں امریکہ اور ارجنٹینا کے عہدیداروں نے ایران کی پشت پناہی میں کی جانے والی دہشت گردی کو ایک مسلسل خطرہ قرار دیا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ میں سویلین سکیورٹی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے قائم مقام انڈر سیکرٹری، نیتھن سیلز نے ولسن سنٹر کی تقریب میں حاضرین کو بتایا کہ ایرانی حکومت کی عالمی دہشت گردی کی مالی مدد کی قیمت ایرانی عوام کو چکانا پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا، ” تہران میں قائم حکومت ہر سال دنیا بھر کے دہشت گردوں کو کروڑوں ڈالر فراہم کرتی ہے” جن میں صرف حزب اللہ کو ہر سال 70 کروڑ ڈالر دیئے جاتے ہیں۔ یہ حکومت “اس کے باوجود یہ کام کر رہی ہے کہ ملک میں جاری معاشی افراتفری عوام کی ایک بڑی تعداد غربت میں دھکیل رہی ہے۔”
ولسن سنٹر کی تقریب میں امریکہ میں ارجنٹینا کے سفیر، فرنینڈو اورِس دو روآ نے اے ایم آئی اے کے بم حملے کوارجنٹینا کی تاریخ کا “سفاک ترین حملہ” قرار دیا۔
انہوں نے ایرانی حکومت پر اس حملے کے ذمہ داروں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ انٹرپول ایرانی حکومت کے کئی ایک سابقہ اعلٰی عہدیداروں کو ارجنٹینا کی عدالتوں میں اس حملے سے متعلقہ الزامات کا سامنا کرنے کے لیے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مشتبہ افراد میں انقلاب اسلامی کی سپاہ کے سابقہ کمانڈر محسن رضائی، سابقہ وزیر دفاع احمد وحیدی اور انٹیلی جنس کے سابقہ وزیر علی فلاحیان شامل ہیں۔
اورِس دو روآ نے کہا، “یہ درد کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔ زخم مکمل طور پر کبھی بھی نہیں بھریں گے۔ مگر [ذمہ داروں کا] اِن حملوں سے بچ نکلنا اس کو اور زیادہ بدتر بنا دیتا ہے۔ جمہوریہ ارجنٹینا، اسلامی جممہوریہ ایران کو ارجنٹینا کی عدالتوں سے تعاون کرنے کی درخواست کرتی چلی آ رہی ہے۔”