اردن میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کا کام کرنا

امریکہ اور اردن کے درمیان شراکت کاری کے تحت اردن کی پسماندہ بستیوں کے سکولوں کی مرمت کی جا رہی ہے تاکہ کلاسوں میں طلبا کی تعداد کم کی جا سکے اور رسائی اور تعلیم میں بہتریاں لائی جا سکیں۔

2007 کے بعد سے اب تک امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ [یو ایس ایڈ] اردن میں 385 سکولوں کی تعمیر، انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانے اور اِن میں توسیع کرنے میں مدد کر چکا ہے۔ اِن میں کنڈرگارٹن کے 322 کلاس روم بھی شامل ہیں۔

یو ایس ایڈ اردن کی تعلیم کی وزارت اور ورکس اور ہاؤسنگ کی وزارت  کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ تک رسائی اور دیگر  اہم ٹکنالوجیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کا کام کر رہا ہے۔ اردن میں 16 فیصد سے زائد طلباء کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں جبکہ ایک تہائی طلبا کے گھروں پر کمپیوٹر نہیں ہیں۔

یو ایس ایڈ کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے سکولوں میں اساتذہ اور طلباء کو کمپیوٹر اور دیگر تدریسی تجربہ گاہوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ملاقات کے کمروں اور تختہائے سفید، پراجیکٹروں اور لیپ ٹاپوں جیسی کلاس روم میں موجود ٹکنالوجیوں تک بھی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اِن سکولوں میں معذور طلباء کے لیے رسائی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریمپ اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

کرسی پر بیٹھی ایک عورت کاغذات دیکھ رہی ہے (Ghassan Nazmi/USAID)
طفیلہ میں واقع یو ایس ایڈ کے مالی تعاون سے چلنے والے خدیجہ بنت خویلد سکول کی پرنسپل رعنا العمیرہ اپنے دفتر میں کام کر رہی ہیں۔ (Ghassan Nazmi/USAID)

طفیلہ میں واقع خدیجہ بنت خویلد سکول کی پرنسپل رعنا العمیرہ نے کہا کہ “محفوظ، اور متحرک تدریسی ماحول اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔” انہوں نے وزارت تعلیم میں اپنی 23 سالہ سروس کے دوران کلاسوں میں گنجائش سے زیادہ طلبا سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کیا۔

میساء ربابہ سکول کی کونسلر[مشیر] ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یو ایس ایڈ کے ذریعے فراہم کی جانے والی ٹیکنالوجیاں انہیں اپنے ساتھی طلباء کی طرف سے ڈرائے دھمکائے جانے والے طلباء یا تعلیمی لحاظ سے کمزور طلباء کو انفرادی طور پر یا گروپوں کی شکل میں  مشورے دینے میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔

یو ایس ایڈ کی وزارت تعلیم کے ساتھ شراکت داری سہولتوں اور ٹکنالوجی کو بہتر بنانے کے علاوہ کووڈ-19 وبا کے بعد تعلیمی نتائج کو بھی بہتر بنا رہی ہے اور طلباء کو اکیسویں صدی کے روزگاروں کے لیے بھی تیار کر رہی ہے۔

طلباء ہاتھ کھڑے کیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں (Ghassan Nazmi/USAID)
جرش شہر میں یو ایس ایڈ کے مالی اعانت سے چلنے والے سکول میں طلباء کو بہتر طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ (Ghassan Nazmi/USAID)

اس شراکت داری کے تحت اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے، طلباء کی پڑھنے اور ریاضی کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جاتا ہے، اور تعلیم میں والدین اور کمیونٹی کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ربابہ بتاتی ہیں کہ وہ ” طلباء کو درپیش مشکلات کے پیچھے وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے والدین کے ساتھ انفرادی اور گروپوں کی شکل میں ملاقاتیں کرتی ہیں۔”

اس شراکت داری کی وجہ سے طلباء کی تعلیم کے حوالے سے کامیابیاں مل رہی ہیں۔ 65 سے لے کر 70 فیصد تک طلبا نے تمام مضامین میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزارت تعلیم کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں دوسری اور تیسری جماعت کے بچوں کے پڑھنے اور سمجھنے میں اس کے باوجود 10 فیصد بہتری آئی ہے کہ کووڈ-19 وبا کے دوران اُن کے پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوئی۔

ربابہ اس کی وجہ طلباء، اساتذہ اور والدین کے ساتھ مل کر قریبی طور پر کام کرنا قرار دیتی ہیں جس کا مقصد کلاس روم اور گھر میں طلباء کے سیکھنے میں پائے جانے والے فرق کو دور کرنا ہے۔ وہ اس کامیابی کی وجہ اُن سہولتوں کو بھی قرار دیتی ہیں جو یو ایس ایڈ نے دستیاب فراہم کیں ہیں۔

لائبریری میں کتاب دیکھتی ہوئے ایک طالبہ (Ghassan Nazmi/ USAID)
جرش میں یو ایس ایڈ کی مالی اعانت سے چلنے والے لڑکیوں کے دھار السارو ثانوی سکول کی گیارھویں جماعت کی طالبہ شیما ابو الشباب اپنے سکول کی لائبریری میں پڑھ رہی ہیں۔ (Ghassan Nazmi/USAID)

ان سہولیات میں بولنے کی تھیراپی کا ایک کمرہ بھی شامل ہے جہاں بولنے میں مشکلات کا سامنا کرنے یا عام بچوں کے مقابلے میں “ڈِسلیکسیا” یعنی دیر سے پڑھنے اور سمجھنے والے بچوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فزکس، کیمسٹری اور کمپیوٹر کی تجربہ گاہیں بھی ہیں جہاں بچوں کو براہ راست اور متعامل تعلیم کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

ربابہ نے بتایا کہ “ستمبر 2022 میں جب ہم نے اس سکول کا آغاز کیا تو ہمیں حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے ہیں اور ہم آنے والے برس میں اس سے زیادہ بڑی کامیابیوں کی توقع کر رہے ہیں۔”

اس مضمون کا ایک ورژن میڈیم میں چھپ چکا ہے۔