اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی ٹکنالوجی کے شعبے میں اقلیتوں کی مدد

اسرائیل کے عرب شہری اعلٰی ٹکنالوجی کے شعبے میں ایک ریکارڈ تعداد میں کام کر رہے ہیں۔ اس کی جزوی وجہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی وہ شراکت کاری ہے جو سفارت خانے نے مقامی کاروباروں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، امریکہ کے تبادلے کے پروگراموں کے سابقہ شرکاء اور اسرائیلی حکومت کے ساتھ قائم کر رکھی ہے۔

اسرائیل میں اقتصادی مواقع کو بہتر بنانے کی جاری کاوشوں میں اپنے شراکت کاروں کے ساتھ مل کر، امریکی سفارت خانہ انجنیئروں کی تربیت کے لیے رقم فراہم کرتا ہے جس سے پسماندہ طبقوں کے لوگوں کو جدید ٹکنالوجی کے ماحول کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ سفارت خانہ عرب شہروں میں اعلٰی ٹکنالوجی کی نئی کمپنیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔ اس کی ایک مثآل 2018ء میں نزریتھ شہر میں نئی عرب کمپنیوں کے لیے امریکی اور اسرائیلی سرمایہ کاروں کی کانفرنس ہے۔

اس نوعیت کی ترقی عرب اور فلسطینی آبادیوں میں ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

لیپ ٹاپوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ۔ (U.S. Embassy Jerusalem)
نزریتھ میں طلبا کمپیوٹر کوڈنگ کے ایک حالیہ پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں۔ (U.S. Embassy Jerusalem)

نزریتھ کی اعلٰی ٹکنالوجی کی سرمایہ کاروں کی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے کہا، “بالآخر، اس خطے کے امن کا انحصار آپ جیسے — یعنی عربوں، یہودیوں، مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں، مذہب پسندوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں جیسے لوگوں کی اقتصادی ترقی اور تعاون پر ہے۔”

اُن کے سفارت خانے کی کوششیں ثمربار ہونے لگی ہیں۔

گزشتہ 11 برسوں میں اعلٰی ٹکنالوجی میں کام کرنے والے عرب شہریوں کی تعداد 20 گنا بڑھکر 7,000 تک پہنچ گئی ہے۔ اور ہر سال سیکڑوں عرب انجنیئر اسرائیل کی اعلٰی ٹکانولوجی میں شامل ہو رہے ہیں۔

اس رجحان کے جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی سے متعلق کورسوں میں داخل ہونے والے طلبا کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی “ٹسوفن” نامی ٹکنالوجی کی ایک غیرسرکاری تنظیم کے مطابق چھ برس میں ٹکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے عربوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔

یونیورسٹیوں کے کیمپس اور تجارتی ادارے عرب اور یہودی اسرائیلیوں، متعلقہ حکومتی فریقوں اور عرب کمیونٹیوں کو آپس میں ایسے طریقوں سے جوڑ رہے ہیں جن سے امتیازی سلوک کے خاتمے اور مثبت تعلقات کی تعمیر میں مدد ملتی ہے۔

فریڈ مین نے 2018ء میں ایک مضمون میں لکھا، “ہم نے ایک سبق جو امریکہ میں سیکھا وہ یہ ہے کہ جب ہم تنوع اور سماجی مشمولیت کی قدر کرتے ہیں تو اہم ایسی مضبوط تر اور مربوط کمیونٹیاں تیار کررہے ہوتے ہیں جو پورے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہیں۔ اسرائیل کی معیشت اور اس کے سماجی تانے بانے کو عرب کمیونٹی میں پائی جانے والی طاقت اور ہنرمندی کے ذخیرے کو استعمال میں لانے سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔”

کانفرنس میں فریڈ میں نے کہا، “جتنا زیادہ ہم اکٹھے مل کر کام کریں گے اتنا ہی زیادہ ہم ایک ایسی سرزمین پر پائیدار امن کی بنیادوں کو مضبوط بنائیں گے جو ایک طویل عرصے سے ایسے ہی امن کی آرزو مند ہے۔”