اس’ چلتے پھرتے آرٹی چوک‘ اور جنگلی حیات کی مدد کیجیے

دنیا میں سب سے زیادہ سمگل کیے جانے والے ممالیے جانورکو اب تھوڑا بہت تحفظ  ملنے لگا ہے کیونکہ اسے اس کی بے حد ضرورت تھی۔

پینگو لین کو بعض اوقات [آرٹی چوک یعنی کنگر نامی سبزی کی مناسبت سے]  “ٹانگوں والا آرٹی چوک” بھی کہا جاتا ہے۔ 180 ممالک سے تعلق رکھنے والے مندوبین اس جانور کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں اور انہوں نے حال ہی میں  جنوبی افریقہ میں  جنگلی حیات کے بارے میں ہونے والی ایک کانفرنس  کے دوران، پینگو لین اور اس سے بنائی جانے والی مصنوعات کی تجارت پر پابندی عائد کی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ جانوروں سے محبت  کرنے والے لوگ  ہاتھیوں اور گینڈوں  کے بارے میں زیادہ جانتے ہوں مگر کم  نظر آنے  اور قبل از تاریخ کے  جانوروں جیسے دکھائی دینے والے پینگولین کی نسل کو معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس جانور کی جلد پر مچھلی کے درہموں کی مانند سخت چھلکے ہو تے ہیں جو اسی مادے کے بنے ہوتے ہیں جس سے ہمارے بال اور ناخون بنتے ہیں۔ ان چھلکوں کو عموماً پاؤڈر کی شکل میں پیس کر دوائی کے جھوٹے دعوے کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔

تھیلوں پر چلتا ہوا ایک پنگولین۔ (© AP Images)
تھائی لینڈ میں جنگلی حیات کو بچانے کے بارے میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک پنگولین کیمرے کے سامنے (© AP Images)

کانفرنس میں  بر بری بندروں اورخاکستری افریقی طوطوں کے  تحفظ کو بھی بڑہایا گیا۔ لیکن بات یہاں پر ہی نہیں ختم ہوئی۔

ہاتھی دانت پرعائد پابندی کی تجدید

ماؤنٹ کِلی منجارو کے پس منظر میں ہاتھیوں کا گزرتا ہوا ایک ریوڑ۔ (© AP Images)
نئے مطالعاتی جائزوں کے مطابق، غیر قانونی شکار کی وجہ سے افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں2007ء سے لے کر 2014 ء تک کے عرصے میں 30 فیصد کمی ہوئی۔ (© AP Images)

عہدے داروں نے ہاتھی دانت کی تجارت کو دوبارہ کھولنے کی دو درخواستیں مسترد کردیں۔ اس فیصلے سے ان افریقی ہاتھیوں کو تحفظ ملے گا جنہیں خلاف قانون شکار سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی جینیٹ ہملی نے کہا، ’’ ہاتھی دانت کی مقامی منڈیوں  کے باعث منظم جرائم پیشہ گروہوں کو غیرقانونی طریقے سے حاصل کیے ہوئے ہاتھی دانت کو قانونی تجارت کا مال ظاہرکرنے کا موقع ملتا ہے۔

شارک مچھلیوں کے لیے امید کی ایک کرن

تیرتی ہوئی تھریشر شارک۔ (Shutterstock)
تھریشر شارک (Shutterstock)

تھریشر شارک، سلکی شارک اورخاص اقسام کی شارک مچھلیوں کوبھی کچھ مدد ملی ہے۔ ہر سال 10 کروڑ تک شارک مچھلیوں کو محض ان کے “پروں” کی خاطر ہلاک کردیا  جاتا ہے یا وہ ماہی گیری کے جالوں میں پھنس کر مر جاتی ہیں۔

شارک کے تحفظ کی پُرزور حامی، اینا اوپوسا نے شارک کو بچانے کے نئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے اور آبادی کو مزید کم ہونے سے روکنے  کی جانب ایک بہت بڑی پیشرفت ہے۔‘‘

ماحول دوست غوطہ زن اور فلپائنی سمندروں کو بچاؤ کی ’’ چیف مرمیڈ ‘‘ اوپوسا کہتی ہیں، ’’تھریشر، سلکی اور موبولا قسم کی شارک مچھلیاں ہماری غوطہ زنی  کی صنعت  کے لیے پر کشش ہیں، اور بلا شک و شبہ یہ  مردہ کی بجائے زندہ حالت میں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔‘‘