اشاروں کی زبان کے مترجمین کیسے کام کرتے ہیں؟

امریکہ میں بہرے اور اونچا سننے والے کئی ملین افراد رہتے ہیں۔ لہذا جہاں عوام  ہوں وہاں پر اشاروں کی زبان کے مترجمین بھی موجود ہوتے ہیں۔

اشاروں کی امریکی زبان (اے ایس ایل) کا استعمال کرتے ہوئے یہ مترجمین ہسپتالوں، عدالتوں، سکولوں، تھیٹروں اور سرکاری اداروں میں ہونے والی تقریبات میں مقررین کے الفاظ کو آگے پہنچاتے ہیں۔ وہ وائٹ ہاؤس کی بریفنگز میں اشاروں کی زبان سے ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ قدرتی آفات یا کووڈ-19 کے پھیلنے سے متعلق ٹیلی ویژن پر ریاستوں کے گورنروں کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات کو بھی اشاروں کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ نجی کاروبار بھی بہرے یا اونچا سننے والے اپنے گاہکوں کی خریداری یا دعوتوں میں کھانے پینے میں مدد کرنے کے لیے اِن مترجمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ (اونچا سننے والے بہت سے افراد اشاروں کی زبان استعمال نہیں کرتے۔)

 ایک عورت نے دائیں ہاتھ کے پہلی دو انگلیاں ہوا میں بلند کی ہوئی ہیں اور ایک آدمی مائکروفون کے پیچھے کھڑا ہے۔ (© Rogelio V. Solis/AP Images)
اگست میں پریس سے گفتگو کے دوران جیکسن، مسس سپی میں گورنر، ٹیٹ ریوز کووڈ-19 کے بارے میں ایک نامہ نگار کے سوال کا جواب دے رہے ہیں اور ایمی اینزورتھ اشاروں کی زبان میں ترجمہ کر رہی ہیں۔ (© Rogelio V. Solis/AP Images)

امریکی ریاست جارجیا میں ڈیوڈ کووان، گورنر برائن کیمپ کی نیوز کانفرنس میں ایسے دل لبھانے والے انداز سے اشاروں کی زبان میں ترجمانی کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے مداح بن گئے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں۔

کووان 1984 سے اشاروں کی زبان کے مترجم ہیں۔ انہوں نے اٹلانٹا میگزین کو بتایا کہ اُن کا کام اُن سے ایسے طریقے سے ترجمانی کرنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ جو کچھ بتا رہے ہوتے ہیں اُسے لوگ سمجھ سکیں۔ کووان نے میگزین کو بتایا، “بہری کمیونٹی لفاظی یا علاقائی بولی نہیں چاہتی۔ وہ پیغام چاہتے ہیں۔ میں معانی … کشید کرتا ہوں۔”

بہروں کی قومی ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو، ہاورڈ روزن بلوم نے کہا کہ اشاراتی زبان کی ترجمانی امریکہ میں 200 سالوں سے رابطے کا حصہ چلی رہی ہے۔ مگر 1960 کی دہائی کے آخر یا 1970 کی دہائی تک یہ کوئی باقاعدہ پیشہ نہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب تربیتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ قابلیت کا جائزہ لینے کے امتحانوں اور معیاری مہارتوں کی نشاندہی کے لیے سرٹیفکیشن کے عمل کا آغاز ہوا۔

 چہرے پر شفاف ماسک لگائے اور ہتھیلیاں نیچے کیے ہوئے ایک عورت اشاروں کی زبان میں ترجمانی کر رہی ہے۔ (© Rogelio V. Solis/AP Images)
اشاروں کی زبان کی ترجمان، سینڈرا ہیسٹر مسس سپی یونیورسٹی کے میڈیکل سنٹر میں جولائی 2020 میں جیکسن، مسس سسپی میں اشاروں کی زبان میں ترجمانی کر رہی ہیں۔ انہوں نے چہرے پر شفاف ماسک پہنا ہوا ہے تاکہ اونچا سننے والے افراد اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھ سکیں۔ (© Rogelio V. Solis/AP Images)

 قانون سازی میں مدد

1973 کے بحالی کے قانون میں وفاقی فنڈ لینے والی وفاقی ایجنسیوں اور اداروں سے بہرے اور اونچا سننے والے افراد سمیت معذور افراد کے لیے تقریبات تک رسائی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

1990 میں معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون میں آجروں، ریاستی اور مقامی حکومتوں اور عوام کے ساتھ کاروبار کرنے والے نجی کاروباری اداروں کو معقول حد تک، معذوریوں کے حامل افراد  کی ضروریات پوری کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔

 ایک عورت سانس کی نالیاں پکڑے ہوئے کھڑی ہے جب کہ دوسری اپنے ہاتھ سے اپنی سانس کی نالی کو تلاش کر رہی ہے۔ (© Shawn Patrick Ouellette/Portland Portland Press Herald/Getty Images
سدرن مین یونیورسٹی کی جوڈی شیفرڈ-کیگل سانس کی نالیاں پکڑے ہوئے کھڑی ہیں۔ اور طالبہ، پولی لاسن اشاروں کی امریکی زبان کی کلاس میں اشاروں سے ترجمانی کر رہی ہیں۔ (© Shawn Patrick Ouellette/Portland Portland Press Herald/Getty Images

روزن بلوم کہتے ہیں کہ یہ قانون “بہرے اور اونچا سننے والوں کے لیے ناقابل یقین مواقع” لے کر آیا۔ اس سے انہیں کالج کی تعلیم، ملازمتوں، طبی سہولتوں کے لیے ڈاکٹروں سے ملنے، عدالت میں پیشی اور تفریح تک رسائی حاصل ہوئی۔

ترجمانی بمقابلہ تفریح

1992 کے بعد سے امریکہ میں ہونے والی کھیلوں کی سب سے بڑی تقریب یعنی سپر باؤل میں قومی ترانہ گانے والے پاپ سٹار گلوکار کے ساتھ ایک اے ایس ایل ماہر نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ سپر باؤل امریکی فٹبال کا میچ ہوتا ہے جسے کروڑوں لوگ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے لوگ کھیل سے قبل اور وقفے کے دوران تفریحی شو دیکھتے ہیں۔

اس سال کے شروع میں 2021 کے سپر باؤل میں ، وارن “واوا” سنائپ نے [امریکی قومی ترانہ] “دی سٹار اسپینگلڈ بینر” کی اشاروں کی زبان میں ترجمانی کی۔ جبکہ لوک موسیقی کے ستارے، ایرک چرچ اور موسیقی کی صنف “ردھم اور بلیوز” کی گلوکارہ، جیسمین سلیوان نے مل کر اسے گایا۔ سنائپ اپنے آپ کو (مترجم کی بجائے) اشاروں کی امریکی زبان کا اداکار کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر وہ بولی جانے والی انگریزی کی لفظ بہ لفظ ترجمانی  کر رہے ہوں تو وہ اپنے آپ کو اظہار خیال کرنے کی آزادی کی اجازت بھی دیتے ہیں۔

روزن بلوم نے کہا، “واوا سنائپ نے ثابت کیا کہ اے ایس ایل میں تخلیقی طریقوں سے بات پہچانا کس طرح ممکن ہے۔ [بالخصوص] اِن عظیم گانوں کو گلوکاروں کی طرح اپنی فنکارانہ ترجمانی سے بیان کرنا [کس طرح ممکن ہے]۔”