راکٹوں سے داغے جانے والے کیمیائی ہتھیار بلاتفریق فوجیوں اور عام شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں ہلاک کر سکتے ہیں۔
تاہم سرن، وی ایکس یا نوویچوک جیسے خفیہ اعصاب شکن مادوں کے ذریعے قاتل بھی لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ موخرالذکر روس میں بنایا گیا فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا مادہ ہے جسے مارچ کے اوائل میں برطانیہ میں ایک مقامی شہری سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کے خلاف استعمال کیا گیا۔

اعصاب شکن مادے کیا ہوتے ہیں؟
یہ انتہائی زہریلے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو جسم کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کر کے اسے درست انداز میں کام کرنےسے روک دیتے ہیں۔ یہ مادے بہت تیزی سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کی زیادہ مقدار کے نتیجے میں متاثرہ شخص پر فوری طور پر تشنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے یا دل کی دھڑکن بند ہونے کے نتیجے میں وہ مر جاتا/جاتی ہے۔
ان مادوں کو گیس، سپرے [چھڑکاؤ] کرنے والے ڈبوں میں یا مائع کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بموں، دھماکہ خیز مواد، سپرے ٹینکوں اور راکٹوں کی صورت میں یا ہاتھوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس ملائشیا کے ایئرپورٹ پر حملہ آوروں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی، کم جانگ نیم کے چہرے پر وی ایکس مادہ مل کر اُنہیں قتل کر دیا تھا۔
عراق کے سابق حکمران صدام حسین نے 1988 میں 5,000 کردوں کو ہلاک کرنے کے لیے سارین گیس استعمال کی۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت پر باغیوں کے زیرقبضہ علاقے میں ایسے ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
انہیں کس نے ایجاد کیا؟
1930 میں ایک جرمن سویلین سائنس دان نے فصلوں کے لیے طاقتور کیڑے مار دوا تیار کرتے ہوئے حادثاتی طور پر پہلا اعصاب شکن مادہ دریافت کیا۔ اس سے فصلی کیڑے مکوڑے تو ہلاک ہو گئے تاہم یہ جانوروں اور انسانوں کےلیے مہلک ثابت ہوا۔
جرمن فوج نے دوسری جنگ عظیم میں سارین گیس بنانے کی ایک فیکٹری قائم کی اور اعصاب شکن مادوں کو ذخیرہ کیا۔ مگرانہیں جنگ میں استعمال نہیں کیا۔
کیا اعصاب شکن مادے کی پہچان آسان ہے؟
نہیں۔ عموماً یہ مادے شفاف اور بے رنگ مائعات کی شکل میں ہوتے ہیں جن کی یا تو بو بالکل نہیں ہوتی یا ہلکی سی میٹھی خوشبو ہوتی ہے۔
لوگ اعصاب شکن مادے کا کس طرح شکار ہوتے ہیں؟
یہ مادے زہریلے بخارات کی شکل میں جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو سکتے ہیں اور آنکھوں اور جلد کے ذریعے جذب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مادے جسم کی سطح پر ٹھہرسکتے ہیں تاہم انہیں دھویا جا سکتا ہے۔
اعصاب شکن مادے کیا کرتے ہیں؟
یہ اعصاب شکن مادے اُس اینزائم [خامرے] کو روک دیتے ہیں جو اُس کیمیائی مادے کو ایک ترتیب سے متحرک کرتا ہے جو سانس سمیت عام جسمانی افعال کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ایسے مادوں کی کم مقدار کے نتیجے میں ناک بہنا شروع ہو جاتی ہے، پُتلیاں سکڑنے لگتی ہیں، متلی اور خفقان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، بینائی متاثر ہونے لگتی ہے، جسمانی افعال بے قابو ہو جاتے ہیں اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔
اعصاب شکن مادے کی زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کی صورت میں اینٹھن یا تشنج کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے ہوشی یا موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اعصاب اور نظامِ تنفس بے کار ہونے پر متاثرہ لوگوں کا دم بھی گھٹ سکتا ہے۔
بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے مراکز کا کہنا ہے کہ مائع سارین گیس کسی کو ایک سے دس منٹ میں ہلاک کر سکتی ہے۔
کیا ایسے مادوں کے تریاق موجود ہیں؟
جی ہاں، عضلات کو پرسکون بنانے والی دوائیں، ایٹروپین اور پریلی ڈوکسیم کلورائیڈ کے ذریعے ان کا توڑ کیا جا سکتا ہے۔ فوجیوں کے ابتدائی طبی امداد کے سامان میں عموماً ایسے خودکار ٹیکے موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ خود اپنا علاج کر سکتے ہیں۔ تاہم انہیں اعصاب شکن مادے کے حملے کے چند ہی منٹ یا گھنٹوں کے اندر فوری طور پر استعمال کرلینا چاہیے۔ استعمال کرنے کی مدت کا انحصار اعصاب شکن مادے کی نوعیت پرہوتا ہے۔