
آئیوری کوسٹ میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے کان کنوں اور کاریگروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب ایک ایسے طریقے سے ہیروں کی تلاش کے لیے کھدائی کرتی ہے جس کی بدولت وہ مقامی بستیوں اور ماحول کا تحفظ کرتے ہوئے زیادہ تعداد میں ہیرے فروخت کر سکتے ہیں۔
یہ طریقہ امریکی معاونت سے شروع کیے گئے اُس منصوبے کا حصہ ہے جس سے مغربی افریقہ کے اس ملک میں کان کنی کے عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں مدد ملی۔

آئیوری کوسٹ میں ایک ہنرمند کان کن ایم ناماٹا سینی نے اس منصوبے کی سرپرستی کرنے والے بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یعنی ‘یوایس ایڈ’ کو انٹرویو میں بتایا، ”اسی کام سے میری گزر بسر ہوتی ہے۔”
عام طور پر یہ لوگ واجبی سے آلات کے ساتھ کام کرتے ہیں اور یوں چھوٹے پیمانے پر کان کنی کرنے والے ان ہنرمندوں اور کاریگروں کو ہیروں کی جلد تلاش، فوری فروخت اور دوسری جگہوں پر جا کر کام کرنے کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں عموماً ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر ماحول کو نقصان ہو تو پھر مقامی لوگوں کے پاس پانی، زراعت یا محفوظ زندگی کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی۔

اگر ہنرمند کان کن روائتی مارکیٹ سے ہٹ کر کام کریں تو وہ ان قیمتی پتھروں کو بالعموم غیر حقیقی اور کم قیمتوں پر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن قیمتی پتھروں کی کھدائی کا عمل شفاف اور قانونی نہ ہو وہ عالمی تجارت کا حصہ نہیں بن سکتے۔
چنانچہ یوایس ایڈ نے کان کنوں کی روزی روٹی اور ماحول کی خاطر ایک منصوبہ شروع کیا جو ہنرمند کان کنوں کو ہیروں کے رسمی اور قانونی ترسیلی سلسلے تک رسائی مہیا کرتا ہے۔
آئیوری کوسٹ میں یہ کام اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت سب سے پہلے کان کنوں کے قیمتی پتھروں کی تلاش کے حقوق ملکیت محفوظ بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح دستاویزات کی موجودگی میں کان کن اپنے ہیرے مہنگے داموں بیچ سکتے ہیں اور زمین پر تصرف کی بدولت انہیں ماحول کو پہنچنے والا نقصان روکنے میں مدد بھی ملتی ہے۔
اس کے نتیجے میں کان کن یو ایس ایڈ کے تعاون سے پائیدار کانیں تشکیل دینے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ناکارہ اشیا کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں تاکہ وہ مقامی دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ نہ کریں۔
نیا دور
ہیروں کی پیداوار اب آئیوری کوسٹ میں ایک بڑی صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ 2005 سے 2014 تک عالمی برادری اس ملک سے قانونی طور پر ہیرے درآمد نہیں کر سکتی تھی کیونکہ خانہ جنگی کی وجہ سے ‘جنگی ہیروں’ کی ایک منڈی وجود میں آچکی تھی۔ باغی گروہ اسلحے کی خریداری اور تشدد کی آگ بھڑکانے کے لیے قیمتی پتھروں کو استعمال کرتے تھے۔ تاہم اب کان کنوں کی ایک روزافزوں تعداد کو تصدیقی نظام کی سہولت میسر ہے اور وہ اس نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔
اب کان کنوں کو ہیروں کے “جنگی معاملات سے پاک” ہونے کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ طریقہائے کار کے مطابق اپنے ہیروں کی تصدیق کرانا ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عام طور پر “کمبرلے طریقہ کار” سے یا معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کی ‘مناسب احتیاطی رہنمائی’ سے کام لیا جاتا ہے۔

یوایس ایڈ کے ٹیراہ ڈیجونگ بتاتے ہیں کہ جنگ کے بعد یہ واضح نہیں تھا کہ اس ملک میں ہنرمند کان کنوں کا کیا بنے گا۔ انہوں نے ہنرمند کان کنوں کو ہیروں کی برآمد کے قابل بنانے کے لیے عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ڈیجونگ نے بتایا، ”اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ ملکیت کا قانونی سلسلہ مکمل ہوا اور اب ہیرے قانونی طور سے باہر جا سکتے ہیں۔”
اس منصوبے کی بدولت کان کنی سے وابستہ لوگوں کو کھدائی کے سابقہ مقامات کو مچھلیاں پالنے کے تالابوں، زرعی زمین، اور شہد کی مکھیاں پالنے کی جگہوں میں تبدیل کرنے میں بھی مدد ملی۔