گھانا سے تعلق رکھنے والے والدین کے بچوں کی پہلی نسل کے طور پر امریکہ میں پلنے بڑھنے والی ڈینیس لوہو مینٹی نے براعظم افریقہ سے اپنے براہ راست تعلق کے ضمن میں عموماً ہر موقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بہت سے افریقی اور افریقی نژاد امریکیوں کےساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے ان میں باہمی اتحاد کی اہمیت کا احساس بیدار ہوا۔ اب امریکی خارجہ امور کی ایک افسر کے طور پر وہ بحر اوقیانوس کے دونوں طرف مزید لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔

3 اگست کو واشنگٹن میں افریقی تارکین وطن سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنماؤں کی پہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”اگر اس براعظم سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن باہم اکٹھے ہوں تو ہم نوجوان رہنماؤں کی حیثیت سے معاملات پر حقیقی معنوں میں اثرانداز ہو سکتے ہیں۔”
اس کانفرنس میں 2018 کے 100 منڈیلا واشنگٹن فیلوز نے افریقی تارکین وطن یا افریقی پس منظر کے حامل اپنے جیسے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اس دوران ان میں اپنے مشترکہ وطن میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے گروہوں میں باہم رابطے کے طریقوں پر تبادلہ خیالات کیا۔
“کانسچی چوئنسی فار افریقہ” [افریقی حلقے] کے صدر میلون فوٹ نے ان کاوشوں کے بارے میں پرامید نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ انہوں نے مارول کے سپر ہیرو ‘بلیک پینتھر’ کی افسانوی سلطنت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”مجھے امید ہے آپ کی نسل افریقہ کو تبدیل کر دے گی۔ آپ ‘واکانڈا کی نسل’ ثابت ہوں گے۔ واکانڈا کی اس افسانوی سلطنت کی جڑیں نہ صرف بھرپور طور سے افریقی ورثے میں پیوست ہیں بلکہ واکانڈا ایجاد و اختراع کا مرکز بھی ہے۔
100 young leaders from Africa + 100 others in the diaspora convene for the first ever #ADYL summit to strengthen unity among Africans and promote international development. #AU #Africa #Leadership #Mandela100 #YALI Streaming live on FB right now.https://t.co/O8GM6GJS5k pic.twitter.com/QJ77QTFGX8
— Gloria Nzeka (@glo_nzk) August 3, 2018
امریکہ میں افریقی یونین کے مشن نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کا مقصد افریقیوں اور افریقی نژاد امریکیوں کی موجودہ نسل کی خود کو ایک برادری سمجھنے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
امریکہ میں افریقی یونین کی سفیر ڈاکٹر اریکانا چیہومبوری کواؤ نے اس موقع پر کہا، ”ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو بتانا چاہیے کہ ہم ایک لوگ، ایک دل، ایک دماغ، ایک آواز اور ایک براعظم ہیں۔”

نائجیریا میں پیدا ہونے والی امریکی، ٹوئن ڈورٹی نے اس کانفرنس میں شرکت کو اپنے لیے ایک انقلابی تجربہ قرار دیا۔ ٹوئن کہتی ہیں، “مجھے یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم اپنے مجموعی، سماجی و معاشی، تاریخی اور ثقافتی مسائل کو کیسے دیکھتے ہیں۔”
ان کا کہنا ہے، ”میں مستقبل کے حوالے سے بھی پرجوش ہوں۔ اس کانفرنس کی بدولت ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسرے نوجوان رہنماؤں سے رابطے اور اشتراک کا موقع میسر آیا۔”
ڈورٹی ایک آن لائن پلیٹ فارم بنا رہی ہیں جو افریقہ، امریکہ اور دیگر جگہوں پر موجود افریقی تارکین وطن کو کاروباری منتظمین اور سرمایہ کاروں کے ساتھ جوڑے گا تاکہ کاروباری شراکتوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ اس موقع پر مقررین اور پینل کے ارکان نے صلاحیتوں کے تبادلے اور ہر جگہ پر اشتراک کے مواقع تخلیق کرنے کے لیے شرکا، حتٰی کہ کمرے میں موجود افراد کی بھی حوصلہ افزائی کی۔
سفیر چیہومبوری کواؤ نے کہا، ”نوجوانو، ہمیں آپ پر بھروسہ ہے۔ آج یہاں بننے والے تعلقات بنیاد پر آپ کو افریقہ کو ترقی کی اگلی سطح پر لے جانا چاہیے۔ اس ملاقات کو روائتی ملاقاتوں جیسی ملاقات نہ بننے دیں۔ ہم نتائج چاہتے ہیں۔”