سیئرا لیون میں ایک ایئرپورٹ اور تنزانیہ میں ایک بندرگاہ –  یہ دونوں پراجیکٹ چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ نامی عالمی  منصوے کا حصہ ہیں اور دونوں ممالک نے اِن پراجیکٹوں کو لاگت اور خود مختاری کے خدشات کے باعث روک دیا ہے۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقصد اُس شہرہ آفاق تجارتی شاہراہِ ریشم کو بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے منصوبوں کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنا اور توسیع دینا ہے جو ایک زمانے میں چین کو دنیا سے جوڑتی تھی۔ تاہم، ناقدین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بہت سے منصوبوں کی فنڈنگ مہنگے اور بھاری قرضوں سے کی جاتی ہے اور اِن منصوبوں سے میزبان ممالک کی خود مختاری پر آنچ آتی ہے اور ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جون میں کہا، “بیجنگ کے معاہدے نہ صرف شرائط لیے ہوتے ہیں بلکہ اِن کے ساتھ بیڑیاں بھی آتی ہیں۔”

جدید امریکی سکیورٹی نامی ایک تحقیقی ادارے کی سال 2019 کی رپورٹ میں چین کے 10 خصوصی منصوبوں پر جب ایک نظر ڈالی گئی تو اس دوران اختیار کے خاتمے، قرض اور بدعنوانی سمیت خدشات کی ایک طویل فہرست سامنے آئی۔ جن منصوبوں کا جائزہ لیا گیا ہے اُن میں ارجنٹینا کے خلائی کمپلیکس سے لے کر اسرائیلی بندرگاہ حیفہ کی توسیع تک کے منصوبے شامل ہیں۔

گزشتہ برس سیئرا لیون نے 30 کروڑ کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے ممامہ بین الاقوامی ایئرپورٹ کے منصوبے کو دیگر وجوہات کے علاوہ قرض اور اس کی کاروباری افادیت نہ ہونے کی وجہ سے منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس منصوبے کے لیے قرض چین نے دینا تھا اور ایک چینی کمپنی نے ہی اسے تعمیر کرنا تھا۔ سیئرا لیون کا کہنا ہے کہ “اسے تعمیر کرنا پیسہ ضائع کرنے کے برابر ہے۔” عالمی بنک نے بھی اس پراجیکٹ کی لاگت اور اس کی تجارتی افادیت کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

تنزانیہ میں حکومت نے تنزانیہ کی خود مختاری کے بارے میں خدشات کی بنا پر باگامویو بندرگاہ کی تعمیر کے منصوبے کو غیرمعینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔ جون میں تنزانیہ کے صدر جان میگوفلی نے  سرمایہ کاروں کے ایک گروپ کو بتایا کہ چین ہم سے چاہتا ہے کہ “ہم انہیں 33 سال کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ 99 سال کے لیے  [بندرگاہ بھی] پٹے پر دیں۔”

Scrolling list of active OPIC projects in Africa (State Dept.)
ماخذ: 2018 تک کے بیرونی ممالک میں نجی سرمایہ کاری کی امریکی کارپوریشن [او پی آئی سی] کے منصوبے۔ (State Dept.)

بہتر متبادل

امریکہ ایسی ترقیاتی امداد کی پیش کش کرتا ہے جو امداد وصول کرنے والے ممالک کو بھاری قرضوں میں نہیں جکڑتی، اُن کی قومی خود مختاری کو کمزور نہیں کرتی اور قدرتی ماحول کو تباہ نہیں کرتی۔

گزشتہ برس افریقہ سے متعلق اپنی تزویراتی پالیسی متعارف کراتے وقت صدر ٹرمپ نے کہا، “ہم ایسے ممالک کے ساتھ اپنی اقتصادی شراکت کو بڑہانے کی امید رکھتے ہیں جو خود انحصاری اور افریقہ اور امریکہ دونوں جگہوں پر نئے روزگار کے مواقعوں کو مضبوط بنانے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔”

امریکہ نے ایک نیا صدارتی منصوبہ متعارف کیا ہے جس کا نام “خوش حال افریقہ کی وساطت سے” ہے۔ اس منصوبے کے تحت امریکہ  اپنے ہاں سے افریقہ میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں مدد کر رہا ہے تاکہ براعظم افریقہ کے طول و عرض میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور افریقہ کے متوسط طبقے کی ترقی کو تیز تر کیا جا سکے۔

مثال کے طور پر امریکہ نے پورے افریقہ میں موبائل نیٹ ورک، بوٹسوانہ کی ہیروں کی صنعت اور روانڈا میں چائے کے ایک پروسیسنگ پلانٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ “پاور افریقہ” نامی منصوبے کے تحت 18 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری افریقہ آئی اور اس سے افریقہ کے زیریں صحارا کے خطے میں پانچ کروڑ ستر لاکھ سے زائد افراد کو بجلی تک رسائی حاصل ہوئی۔

اِن پراجیکٹوں کا شمار افریقہ کے طول و عرض میں پھیلے امریکی اعانت سے چلنے والے بیسیوں دیگر پراجیکٹوں میں ہوتا ہے۔

نائب صدر پینس نے گزشتہ برس ایشیا اور بحرالکاہل کی اقتصادی تعاون کی سربراہ کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک پر  تبادلہ خیال  کرتے ہوئے کہا، “اکثر و بیشتر [غیرملکی قرضوں] کے ساتھ شرائط نتھی ہوتی ہیں اور اِن کے نتیجے میں [قرض لینے والے ممالک] بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ہم اپنے شراکت کاروں کو قرضوں کے سمندر میں نہیں ڈبوتے۔ ہم آپ کو اپنی آزادی پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔”