افغانستان کے پاس تاریخی امن کا ایک موقع

ایک اعلٰی امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سیاسی راہنماؤں اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن کے مذاکرات 40 سالہ جنگ کے بعد امن کا ایک تاریخی موقع فراہم کرتے ہیں۔

افغان مصالحت کے لیے امریکی نمائندے، زلمے خلیل زاد نے 24 ستمبر کو امن کے امریکی انسٹی ٹیوٹ کو بتایا کہ 12 ستمبر کو دوحہ، قطر میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے دوران، “افغانوں کی افغانوں کے ساتھ سچی، جراتمندانہ اور مخلصانہ مصالحت کی ضرورت ہے۔”

خلیل زاد نے کہا، “اس وقت کی اہمیت سے آگاہ ہونا اور اس کے تاریخ کے ساتھ تعلق کو سمجھنا اہم ہے۔ فریقین پر لازم ہے کہ اب وہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کے لیے اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کردیں جو موت اور مایوسی کے 40 سالہ باب کو بند کردے۔ یہ آسان نہیں ہوگا۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس سمجھوتے میں یہ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان پھر کبھی بھی بین الاقوامی دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ بنے، کہا کہ امریکہ کے 29 فروری کے طالبان کے ساتھ امن سمجھوتے نے موجودہ مذاکرات کے دروازے کھولے ہیں۔

ٹویٹ:

وزیر خارجہ پومپیو

میں حقیقی معنوں میں افغان عوام کے لیے اس تاریخی موقع پر دوحہ کا دورہ کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ ایک ایسے موقع پر جب ہم افغان عوام کے لیے پائیدار امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ہم قطر کی حکومت کی اِن انتہائی اہم مذاکرات میں مدد کرنے پر مشکور ہیں۔

 مذاکرات کے آغاز میں، امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے مذاکرات کاروں پر زور دیا کہ وہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان نے جو اہم سماجی، معاشی اور سیاسی کامیابیاں حاصل کی ہیں اُنہیں آگے بڑہائیں۔

12 ستمبر کو دوحہ میں ایک بیان میں پومپیو نے کہا، “یہ کمال کی بات ہے اور انسانی جذبوں کی ایک گواہی ہے کہ درد اور تباہی کے نمونوں کا افغان عوام اور اُن کے بہت سے دوستوں کی مستقل امیدوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔”

24 ستمبر کو “افغانستان میں لڑائی کے خاتمے کی (کیا یہ) ابتدا ہے؟” کے موضوع پر ہونے والی ایک تقریب میں خلیل زاد نے مستقل فائربندی اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سمیت کامیاب مذاکرات کے مقاصد کا خاکہ پیش کیا۔

خلیل زاد نے کہا کہ گو کہ افغان راہنما اپنے تئیں اِن مذاکرات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، مگر بین الاقوامی برادری اِن پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور مذاکرات میں عورتوں کی شمولیت کو ایک حوصلہ افزا علامت کے طور پر دیکھتی ہے۔

خلیل زاد نے کہا، “مذاکرات کی میز پر بیٹھے سب کی تاریخ سانجھی ہے؛ اب انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے لیے اُن کی راہ کو بھی بہرصورت سانجھا ہی ہونا چاہیے۔ ابھی تک تو سب علامات مثبت ہیں۔”