اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں

نکی ہیلی گول میز کے گرد بیٹھی تقریر کر رہی ہیں۔ (Volkan Furuncu/Anadolu Agency/Getty Images)

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر بننے کے لیے کوئی شخص انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ یہ عہدہ ہر مہینے باری باری ان 15 ممالک کے درمیان تبدیل ہوتا رہتا ہے جو اقوامِ متحدہ کی اس مجلس کے رکن ہیں جس پر عالمی امن قائم رکھنے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ہر مہینے جو ملک صدارت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے، اسے ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے بعض مشکل ترین مسائل پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔

اپریل کے مہینے کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت امریکہ نے سنبھالی۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر، نِکی ہیلی نے فوری طور پر سلامتی کونسل کے اپریل کے ایجنڈے کے لیے اُن تین مسائل کے بارے میں ترجیحات طے کیں جو صدر ٹرمپ کے نزدیک اہم ترین ہیں:

  • اقوامِ متحدہ کی قیامِ امن کی ناگزیر مگر مہنگی کارروائیوں میں اصلاحات۔
  • تصادم کو روکنے میں، انسانی حقوق پر سلامتی کونسل کی توجہ کی اہمیت۔
  • شمالی کوریا کے غیرقانونی جوہری اسلحے کے پروگرام سے نمٹنا۔

ساؤتھ کیرولائنا کی سابق گورنر اور کاروباری خاتون اور بھارتی تارکینِ وطن کی بیٹی، ہیلی نے 3 اپریل کو کہا، “صدر کی حیثیت سے میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر آپ آج کی دنیا کو درپیش تنازعات پر نظر ڈالیں، تو پتہ چلے گا کہ ان کی  بنیاد انسانی حقوق کے وہ مسائل ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔”

ہیلی سے پہلے سلامتی کونسل کے صدر کا عہدہ برطانیہ کے سفیر، میتھیو رائیکروفٹ کے پاس تھا، اور مئی میں یہ عہدہ یوروگوائے کے سفیر، ایلبیو روسیلی کو منتقل ہو جائے گا۔

اس مہینے میں ایک روز کے لیے ایک اور امریکی عہدے دار صدارت کی یہ کرسی سنبھالیں گے: اور یہ ہیں وزیرِ خارجہ ریکس ٹِلرسن۔ اس ملک کے اعلیٰ ترین سفارتکار کی حیثیت سے، وہ 28 اپریل کو امریکہ کی اُس وقت نمائندگی کریں گے جب شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام پر بات چیت کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس ہوگا۔ (توقع ہے کہ اس روز کونسل کے دیگر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ بھی اجلاس میں موجود ہوں گے۔)

Circular desk lined with people (© AP Images)
نکی ہیلی کرسیٔ صدارت پر (اوپر دائیں جانب)، جب سلامتی کونسل نے 12 اپریل کو ایک قرارداد پر ووٹ ڈالے جس میں شام کی طرف سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی گئی تھی ۔(© AP Images)

سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہیں — یعنی امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور روس۔ اقوامِ متحدہ کے دوسرے 188 خود مختار رکن ممالک میں سے دس ملک باری باری دو سال کی مدت کے لیے سلامتی کونسل کے رکن بنتے ہیں۔

اس طرح کونسل کے ہر رکن کو سلامتی کونسل کا رکن بننے اور کونسل کے ایجنڈے کو آگے بڑہانے کا موقع ملتا ہے۔ پانچ مستقل رکن ملکوں کی نمائندگی کرنے والے سفیروں کو اکثر کئی کئی بار صدارت کا موقع مل جاتا ہے۔ آنجہانی روسی سفیر، وٹالے چرکن اقوامِ متحدہ میں اپنی 11 سالہ مدت کے دوران کئی بار سلامتی کونسل کے صدر بنے۔

بحراںوں کے ایام میں، صدر سلامتی کونسل کی نمائندگی کرتے ہوئے پریس سے بھی مخاطب ہوتے ہیں اور اس طرح وہ سلامتی کونسل کا چہرہ بن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے منشور کے تحت، سلامتی کونسل کی قراردادوں کی منظوری کے لیے نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہر مستقل رکن اپنا ویٹو کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ روس نے ایک ایسی حالیہ قرارداد کو ویٹو کیا جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کی مذمت کی گئی تھی۔ اس تنازعے کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک، روس نے آٹھویں بار شام سے متعلق قراردادوں کو ویٹو کے ذریعے منظور ہونے سے روکا ہے۔

اہم بحثوں کے دوران، صدر اپنا یہ کردار تبدیل بھی کر لیتے ہیں اور اپنے ملک کے نمائندے کی حیثیت سے بات کرتے ہیں۔ 5 اپریل کو ہیلی نے بھی اپنی جذباتی تقریر میں اُس وقت ایسے ہی کیا جب انھوں نے تقریباً یقینی طور پر شامی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کیمیاوی ہتھیاروں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصویریں دکھائیں۔