سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ کو اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے کی حیثیت سے نئی ذمہ داریاں سونپیں گئی ہیں۔ امریکہ کے سفارتی عہدوں میں وزیرخارجہ کے بعد سب سے زیادہ توجہ کا حامل یہ عہدہ ہے۔

تھامس-گرین فیلڈ، 1947ء میں کانگریس کے ایک قانون کے تحت وجود میں آنے والے، اقوام متحدہ میں امریکی مشن  کی سربراہی کرنے والی اکتیسویں شخصیت ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سیاسی امور، تصادموں کی صورت میں امن کے قیام، انسان دوست امداد اور انسانی حقوق سے متعلق امریکی مفادات کی نمائندگی کرنے کا دہائیوں کا تجربہ حاصل ہے۔

24 فروری کو امریکی سینیٹ نے ایک طویل مدت سے سفارت کار کے طور پر کام کرنے والی تھامس-گرین فیلڈ کی نامزدگی کی توثیق کی اور اسی دن امریکی نائب صدر ہیرس نے تھامس-گرین فیلڈ سے اُن کے عہدے کا حلف لیا۔ تھامس-گرین فیلڈ کو صدر بائیڈن کی کابینہ کی ایک رکن کی حیثیت حاصل ہے۔ بائیڈن نے انہیں ایک تجربہ کار، ممتاز اور جدت طراز سفارتی عہدیدار  قرار دیتے ہوئے کہا، “میں خارجہ پالیسی کے اُن تمام بحث مباحثوں میں اِن کی رائے سننا چاہتا ہوں جو ہم کرتے ہیں۔”

اقوام متحدہ کو درپیش چیلنجوں کی کوئی کمی نہیں: مثال کے طور پر کورونا وائرس کی عالمی وبا، دن بدن سنگین ہوتی ہوئی آب و ہوا کی ہنگامی صورت حال، حالیہ معاشی دباؤں سے بدتر ہوتی ہوئی نسلی بے انصافی، نقل مکانیاں اور انتہائی غربت۔ دنیا کے بعض حصوں میں آمر اپنا اقتدار مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

سفیر نے شیئر امیریکا کو بتایا، “ہمارا لائحہ عمل بالکل وہی کچھ کرنا ہے جو صدر بائیڈن نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا ہے یعنی اپنے اتحادوں کو بہتر بنانا، کثیرالجہتی اداروں کے ساتھ دوبارہ مل جل کر کام کرنا، اور مثال کی قوت سے قیادت کرنا۔”

 ہاتھ میں قلم پکڑے اور مائکروفون کے سامنے بیٹھیں، لنڈا تھامس-گرین فیلڈ (© Greg Nash/AP Images)
واشنگٹن میں اپنی نامزدگی کی حالیہ توثیق کے دوران لنڈا تھامس-گرین فیلڈ اپنا حلفیہ بیان دے رہی ہیں۔ (© Greg Nash/AP Images)

تھامس-گرین فیلڈ ایک ایسے وقت اقوام متحدہ میں پہنچ رہی ہیں جب امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی گردشی صدارت سنبھالنے والا ہے۔ وہ فوری طور پر تصادموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک کو سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر لائیں گیں۔

انہوں نے سلامتی کونسل کے ممبروں کو بتایا، “جب ہم ان تکنیکی اصطلاحات یعنی غذائی سلامتی، غذائیت کی شدید کمی، تصادموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک کا استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں ان کے حقیقی مطلب کو نہیں بھولنا چاہیے۔  سادہ لفظوں میں ہم انسانیت کی بات کر رہے ہیں۔ ہم حقیقی مصائب کی بات کر رہے ہیں۔ ہم زندہ انسانوں کی بات کر رہے ہیں۔”

 ایک امریکی کہانی

آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی، تھامس-گرین فیلڈ کی والدہ باورچن تھیں اور والد ایک دیہاڑی دار مزدور تھے جنہیں  لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ اُن کے والدین نے اُن کی پرورش ریاست لوزیانا کے ایک چھوٹے اور نسلی بنیادوں پر الگ کیے گئے بیکر نامی شہر میں کی۔ اس شہر میں کلو کلکس کلین نے دہشت پھیلا رکھی تھی۔ کلو کلکس کلین ایک بدنام زمانہ گروہ تھا جس کی تاریخ تشدد بالخصوص افریقی نژاد امریکیوں کے خلاف تشدد سے بھری ہوئی ہے۔

تھامس گرین-فیلڈ نے نسلی بنیادوں پر الگ قائم کیے گئے ایک ہائی سکول سے گریجوایشن کی اور ریاست لوزیانا کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں بعد میں کلین کا لیڈر بننے والے ڈیوڈ ڈیوک جیسے لوگوں کے ساتھ انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ اُن کا شمار لوزیانا یونیورسٹی میں پڑھنے والی اولین افریقی نژاد امریکی خواتین میں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا، “اِن تجربات نے مجھے سنگدل بنانے کی بجائے، میرے نقطہائے نظر کو ایک مختلف جہت دی۔ انہوں نے مجھے ہمدردی کی قوت سے آشنا کیا۔ میں نے یہ سمجھنا سکیھا کہ ہمدردی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہوتی ہے۔”

کالج سے گریجوایشن کے بعد تھامس گرین- فیلڈ نے وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی اور اپنے خاندان میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی پہلی فرد بنیں۔ انہوں نے 1982 میں فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور اپنی اُس پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے دوران انہوں نے چار براعظموں میں کام کیا۔  انہوں نے لائبیریا میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ سوئٹزرلینڈ، پاکستان، کینیا، گیمبیا، نائجیریا اور جمیکا میں تعینات رہیں۔

 سمنتھا پاور اور لنڈا تھامس-گرین فیلڈ ایک گروپ کے ہمراہ میز کے ارد گرد بیٹھی ہیں (© Jerome Delay/AP Images)
2013ء میں محکمہ خارجہ میں تب کی اسسٹنٹ سیکرٹری تھامس-گرین فیلڈ (دائیں درمیان میں) اور اقوام متحدہ میں تب کی امریکی سفیر، سمنتھا پاور (بائیں درمیان میں)، وسطی افریقی جمہوریہ کے شہر بنگوئی میں مسلمان اور عیسائی رہنماؤں سے ملاقات کر رہیں ہیں۔ (© Jerome Delay/AP Images)

واشنگٹن میں محکمہ خارجہ میں تھامس-گرین فیلڈ نے ایبولا بحران کے دوران افریقی امور کے بیورو میں اسسٹنٹ سکریٹری کی حیثیت سے قیادت کی۔  اس سے پہلے انہوں نے محکمہ خارجہ کی 70،000 مضبوط افرادی قوت کے اہلکاروں کے انتظامی امور کی نگرانی کی۔ انہوں نے محکمہ خارجہ میں تنوع، مساوات اور شمولیت کی اُن کوششوں کی بھرپور حمایت کی جنہیں وہ اقوام متحدہ میں بھی فروغ دینا جاری رکھیں گیں اور اور بڑے پیمانے پر طاقت کی امریکہ کی مثال کے ذریعے رہنمائی کریں گیں۔

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا کہ وہ امریکہ بھر میں مقامی رہنماؤں اور نوجوانوں کو عالمی امور میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ اقوام متحدہ کو نیو یارک سے باہر نکالنے کے مصداق کام کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا، “ہم اس بات کو معمول سے بڑھکر کہیں زیادہ یقینی بنائیں گے کہ ہمارا کام اور ہماری حمایت تمام امریکیوں کی منشا اور نقطہائے نظر کی عکاسی کریں۔”