اقوام متحدہ کا معاہدہ یوکرینی اناج بھوک کے شکار لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے

 لائن میں کھڑے لوگوں کی تصویر جس میں انہوں نے ہاتھوں میں برتن پکڑے ہوئے ہیں جن پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:" پیوٹن کی جنگ پوری دنیا میں بھوک کے شکار لوگوں کو تکلیف پہنچا رہی ہے۔" (Photo: © PreciousPhotos/Shutterstock.com)
(State Dept./M. Gregory)

اگر روس اقوام متحدہ کے بحیرہ اسود کے اناج کے منصوبے کی تجدید کرنے میں ناکام رہتا ہے تو دنیا بھر میں بھوک کے شکار لوگوں کے لیے بھیجا جانے والا لاکھوں ٹن اناج یوکرین کی بندرگاہوں میں پڑا رہے گا۔

یوکرین اور روس کے درمیان جولائی کے آخر میں ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے اس منصوبے کے تحت اب تک بحیرہ اسود کے راستے 10 ملین میٹرک ٹن سے زائد یوکرین کی زرعی درآمدات بھجوائی جا چکی ہیں۔ یہ معاہدہ 19 نومبر کو ختم ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے خوراک کی قیمتوں کے اشاریے کے مطابق اس منصوبے کی بدولت مسلسل چھٹے مہینے خوراک کی قیمتوں میں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔

‘خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا’

اقوام متحدہ، نیٹو، یورپی یونین اور امریکی حکومت سب روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن پر زور دے چکے ہیں کہ وہ بحیرہ اسود کے اناج کے منصوبے کی تجدید کریں۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 4 نومبر کو کہا کہ “سچ تو یہ ہے کہ خوراک کو دنیا تک پہنچانے کی اجازت دینے کے لیے ہمیں صدر پیوٹن کے ساتھ مسلسل بات چیت کرنے کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری ماسکو کو یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ اسے بھوک کو سودے بازی کی چال کے طور پر استعمال کرنا بند کر دینا چاہیے اور اس ماہ کے آخر میں اناج کے اس معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے اس میں توسیع کر دینا چاہیے۔”

ماسکو نے اکتوبر کے آخر میں اس معاہدے سے دستبردار ہو ئے کا اعلان کیا۔ اس کے ردعمل میں بلنکن کو کہنا پڑا کہ “روس اُس جنگ میں خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے جو اس نے شروع کی ہے۔” اس کے بعد روس نے اس معاہدے پر عمل کرنا شروع کر دیا مگر اس نے معاہدے کو 19 نومبر سے آگے بڑھانے کا وعدہ نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام نے امریکی فنڈنگ کی مدد سے یوکرینی گندم قرن افریقہ کے ممالک اور یمن بھیجی ہے۔ اس خطے کے ممالک کو شدید خشک سالی اور تصادموں کا سامنا ہے۔

یوکرینی زرعی اجناس حاصل کرنے والے دیگر ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، جبوتی، بھارت، لیبیا اور تیونس شامل ہیں۔

اقوام متحدہ  کے بحیرہ اسود کے اناج کے منصوبے کی ویب سائٹ پر یوکرین سے اناج لے کر نکلنے والے بحری جہازوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات پابندی سے شائع کی جاتی ہیں۔ 3 نومبر تک 10 ملین میٹرک ٹن اناج بھیجا جا چکا ہے۔

انسانی ہمدردی کے اداروں کے عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں، مسلح تنازعات اور کووڈ-19 سے رسدی سلسلوں میں پڑنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے خوراک کا عالمی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم اناج کی فراہمی کے منصوبے کی کامیابی ایک امید افزا پیش رفت ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتیرس کے ترجمان نے 28 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا کہ “ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ بحیرہ اسود کے اناج کے منصوبے کی تجدید کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔” ترجمان نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ “دنیا بھر کی حکومتیں، جہاز راں کمپنیاں، اناج اور کھاد کے تاجر اور کسان اب مستقبل کے بارے میں واضح صورت حال جاننے کے منتظر ہیں۔”

گتیرس نے 2 نومبر کو کہا کہ وہ “اس منصوبے کی تجدید اور مکمل نفاذ کے لیے تمام فریقین کے ساتھ اپنے  روابط جاری رکھیں گے۔”