جالی پر پڑے ہوئے جوتے جن میں پھول رکھے ہوئے ہیں۔ (© Siavosh Hosseini/NurPhoto/Getty Images)
15 ستمبر2017 کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سامنے ایک یادگار کے ذریعے 1988ء میں ایران میں ہونے والے30,000 سیاسی قیدیوں کے قتل عام کو اجاگر کیا گیا۔ (© Siavosh Hosseini/NurPhoto/Getty Images)

17 دسمبر کو اقوام متحدہ نے ایران کی جانب سے طویل مدت سے روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی زیادتیوں پر اس کی سرزنش کی ہے اور اسے کہا ہے “کہ کسی پر بھی تشدد یا ظلم نہ کیا جائے، نہ ہی کسی کے ساتھ غیرانسانی یا ہتک آمیز سلوک کیا جائے اور نہ سزا دی جائے۔”

یہ باتیں “ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال” سے متعلق ان بہت سی سفارشات میں شامل ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا۔

193 رکنی جنرل اسمبلی میں ان سفارشات کے حق میں 84 جبکہ اس کی مخالفت میں 30 ووٹ آئے اور67 اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

اس قرارداد میں حکومت کی طرف سے نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے “ہراساں کیے جانے، ڈرانے دھمکانے، ظلم و زیادتیاں کرنے، من مانی گرفتاریاں کرنے اور حراست میں لینے پر” ایرانی حکومت کو تنبیہ کی گئی ہے۔ ان نسلی اور مذہبی اقلیتوں میں عیسائی، گونا بادی درویش، اہوازی، یہودی، صوفی مسلمان، سنی مسلمان، یرسانی، زرتشت اور بہائی مذہب کے ماننے والے لوگ شامل ہیں۔

جنرل اسمبلی نے ایران کے ایسے افراد کے خلاف سزائے موت کے “خطرناک حدوں کو چھونے والے” استعمال کی بھی مذمت کی ہے جن سے زبردستی ایسے جرائم کے ارتکاب کا اقبال جرم کروایا جاتا ہے جو “سنگین ترین” جرائم کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اسی طرح کم عمر بچوں کی سزائے موت کی بھی مذمت کی گئی ہے۔

ہراساں کرنے، ڈرانے دھمکانے اور ظلم و زیادتی کرنے والی حکومت

 اس چارٹ میں وہ سرگرمیاں دکھائی گئیں ہیں جو ایران میں جرائم سمجھی جاتی ہیں۔(State Dept.)

انسانی حقوق کی جن دیگر خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے ایران پر زور دیا گیا ہے ان میں ذیل کی خلاف ورزیاں شامل ہیں:

  • آزادی اظہار رائے اور اکٹھے ہونے کی آزادی پر “وسیع اور کڑی پابندیاں۔”
  • عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں۔
  • جیلوں کے خراب حالات اور قیدیوں کو مناسب طبی علاج تک رسائی کے جان بوجھ  کر انکار کا طرزعمل۔
  • وسیع پیمانے پر اور ایک منظم طریقہ کار کے تحت، بالخصوص دوہری شہریت کے حامل افراد یا غیر ملکی شہریوں کی، من مانی گرفتاریاں۔

کھوکھلے وعدے

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ایرانی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین زیادتیوں اور اپنا ریکارڈ بہتر نہ بنانے کے لیے کچھ نہ کرنے کی، ایک طویل دستاویزی تاریخ موجود ہے۔

ایرانی حکومت کے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے 1985 سے لے کر آج تک 31 قراردادیں منظور کیں ہیں۔ ان کے جواب میں اسے ایرانی حکومت کے لیڈروں کی جانب سے موصول ہونے والے وعدوں میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ سفارش کردہ اصلاحات کو عملی طور پر نافذ کریں گے۔

2018ء کی قرارداد میں ایک بار پھر ایران کو کہا گیا ہے کہ وہ “اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کی جانب سے انسانی حقوق سے متعلق تحفظات کے بارے میں کیے جانے والے وعدوں کو جتنا جلدی ممکن ہوسکے ایسے انداز سے پورا کرے جس سے بہتریاں نمایاں طور پر نظر آئیں۔”

محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پالاڈینو نے کہا کہ یہ قرارداد ایک بار پھر دنیا کی توجہ “ایران کے بیزار کن انسانی حقوق کے ریکارڈ کی جانب مبذول کراتی ہے۔”