
یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اسلامی جمہویہ ایران کی حکومت ہتھیاروں کے جدید نظام نہ خرید سکے، نہ فروخت کر سکے یا جوہری بمب نہ بنا سکے، امریکہ ایرانی حکومت کے خلاف لگائی گئی اقوام متحدہ کی پابندیوں کو بحال رکھنے جا رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 20 اگست کو اقوام متحدہ میں اس اقدام کا اعلان کیا اور ایرانی حکومت کے مذموم رویے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا۔
پومپیو نے کہا، “ہمارا پیغام بہت سیدھا سادہ ہے: امریکہ، ریاستی دہشت گردی کے دنیا کے سب سے بڑے سرپرست کو طیارے، ٹینک، میزائل، اور دیگر قسم کے روایتی ہتھیاروں کو آزادانہ طور پر خریدنے اور فروخت کرنے کی اجازت کبھی بھی نہیں دے گا۔ اقوام متحدہ کی ان پابندیوں کے تحت ہتھیاروں پر عائد پابندی جاری رہے گی۔”
ایران کی جوہری معاہدے کی 2015 میں توثیق کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231، امریکہ کو ایران کے خلاف “دوبارہ پابندیاں لگانے” کی اجازت دیتی ہے۔ یہ وہی شق ہے جس پر اوباما کے دور کے عہدیداروں نے اس وقت زور دیا تھا۔ دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیاں پومپیو کے اعلان سے 30 دن بعد نافذ العمل ہو جائیں گیں۔
The prior administration left no doubt that the U.S. has the ability to snap back sanctions on Iran. That’s what we intend to do. As President @realDonaldTrump said, we will not continue down a path whose predictable end is more violence, terror, and a nuclear armed Iran. pic.twitter.com/0rrOt8qoO1
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) August 20, 2020
ٹویٹ کی عبارت کا ترجمہ:
وزیر خارجہ پومپیو: اس سے پہلی انتظامیہ نے اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑا کہ امریکہ کو ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کی اہلیت حاصل ہوگی۔ ہم یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ @realDonaldTrump (صدر ڈونلڈ ٹرمپ) نے کہا، ہم کسی ایسی راہ پر نہیں چلتے جائیں گے جس کا واضح اختتام مزید تشدد، دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ایران ہے۔
اکتوبر میں ختم ہونے والی ہتھیاروں پر عائد پابندی میں توسیع کے علاوہ، امریکہ کے اس اقدام کے تحت ایرانی حکومت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ بیلسٹک میزائلوں کے تجربات اور یورینیم کی افزودگی بند کرے۔ ایران کی اِن کاروائیوں سے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ ایران کے لیڈروں نے جون میں ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی اُس درخواست کو رد کر دیا تھا جس میں اُن دو جوہری مقامات تک رسائی مانگی گئی تھی جہاں ہتھیاروں کی پابندی کی بار بار خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں.
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے مشرق وسطی میں طفیلی گروہوں اور دہشت گرد تنظمیوں کو ہتھیار فراہم کر کے ایرانی حکومت اِن پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نومبر 2019 اور فروری 2020 میں یمن کے ساحل کے قریب قبضے میں لی جانے والی ہتھیاروں کی کھیپیں ایران سے آئیں تھیں اور سعودی عرب کے تیل کے کنووں پر ستمبر 2019 میں ہونے والے حملوں میں جو ہتھیار استعمال کیے گئے تھے اُن کا ذریعہ بھی ایران ہی تھا۔
پومپیو نے کہا کہ سعودی عرب نے بحرین، کویت، اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ہمراہ ایک خط میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر ہتھیاروں کی پابندی کی تجدید کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا، “ایران کے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے، کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے یہ ممالک بہتر جانتے ہیں کہ ایران اِن ہتھیاروں سے کس قسم کی تباہی پھیلا سکتا ہے۔”
امریکہ مشرق وسطی میں تصادموں کو ہوا دینے اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اقتصادی پابندیوں کا استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ پومپیو نے کہا، “ہم اسلامی جمہوریہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے۔”
انہوں نے کہا، “آج کا اقدام ایران پر ایک عام ملک جیسا رویہ اختیار کرنے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے اضافی دباؤ ڈالتا ہے۔”