
اقوام متحدہ کے مطابق، نکولس مادورو کی غیرقانونی حکومت کے ہاتھوں وینزویلا میں انسانی حقوق کی انتہا درجے کی پامالیاں جاری ہیں۔
25 ستمبر 2020کو وینزویلا میں انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین صورت حال کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، مشیل بیچلیٹ نے بتایا کہ 2 جولائی 2020سے ” ہم نے اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگتی ہوئی دیکھی ہیں۔ اِن پابندیوں میں نفرت انگیز قانون کا اطلاق، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں پر حملے اور صحافیوں کی گرفتاریاں شامل ہیں۔”
بیچلیٹ نے حکومت کے زیرکنٹرول پولیس فورسز کی طرف سے وینیزویلا کے شہریوں کے خلاف حکومت کی منظوری سے کیے جانے والے تشدد کی تفصیلات بیان کیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، “میں پسماندہ علاقوں میں سکیورٹی کی کاروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی نوجوانوں کی ہلاکتوں سے پریشان ہوں۔”
بیچلیٹ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے جون سے لے کر اگست تک 711 ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں جس سے جنوری کے بعد ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 2,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔

بیچلیٹ کی تازہ ترین گفتگو، وینیز ویلا کی بولیوار کی جمہوریہ سے متعلق اقوام متحدہ کے حقائق معلوم کرنے والے ایک آزاد بین الاقوامی مشن کی 16 ستمبر 2020 کو شائع ہونے والی ایک علیحدہ رپورٹ کے جاری کیے جانے کے فوراً بعد کی گئی۔ مشن کی سربراہ، مارٹا ویلینیاس کےمطابق مشن کے پاس “یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہات ہیں کہ وینزویلا کے حکام اور سکیورٹی فورسز نے 2014 کے بعد انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی منصوبہ بندی کی اور ان پر عمل کیا۔ اِن خلاف ورزیوں میں سے بعض، جن میں یکطرفہ ہلاکتیں اور منظم طریقے سے کیا جانے والے تشدد کا استعمال بھی شامل تھا، انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔”
حقائق تلاش کرنے والے مشن کی رپورٹ میں سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی ہلاکتوں اور تشدد کے ساتھ ساتھ عدالتوں سے ماورا اُن پھانسیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے احکامات براہ راست مادورو حکومت نے دیئے۔ رپورٹ کہتی ہے، “اس مشن کے پاس یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں کہ صدر اور داخلہ اور دفاع کے وزراء ، تینوں نے اس رپورٹ میں درج کیے گئے جرائم کے ارتکاب کے احکامات دیئے یا ان کے ارتکاب میں معاونت کی۔”
زیر نظر رپورٹ میں جس مدت کا جائزہ لیا گیا ہے اُس کے دوران ہونے والی 59 فیصد عدالتوں سے ماورا ہلاکتوں کے ذمہ دار، بولیوار کی نیشنل پولیس کی سپیشل ایکشن فورس (ایف اے ای ایس) اور وینزویلا کی قومی پولیس کا سب سے بڑا ادارہ، سی آئی سی پی سی ہیں۔
عام شہری اور مادورو کی غیرقانونی حکومت کی نظروں میں “مجرم” سمجھے جانے والے افراد اِن زیادتیوں کا شکار بنتے ہیں۔ رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک فوجی منصوبے کے نتیجے میں 30 افراد پر تشدد اور اُن کا قتل عام کیا گیا اور 2016ء میں پانچ افراد غائب ہوئے۔
حقائق تلاش کرنے والے مشن کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر جاری کیے جانے والے او ایچ سی ایچ آر کے بیان کے مطابق، “ایف اے ای ایس کو ختم کیا جائے اور تمام سکیورٹی فورسز اور ان کی کمان کے سلسلوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔”
بیچلیٹ کی 2019 کی رپورٹ میں بھی ایف اے ای ایس کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مطالبے کا شمار، او ایچ سی ایچ آر کی 2019 اور 2020 کی رپورٹوں میں حکومت کو پیش کی گئی تقریبا 60 مشترکہ اُن سفارشات میں ہوتا ہے جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

قانونی عبوری صدر، خوان گوائیڈو نے بین الاقوامی برادری سے اِس غیرقانونی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کو ختم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے 23 ستمبر2020 کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا، “میں اپنے (صورت حال) کو ٹھیک کرنے، اس وقت جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور اُس دہشت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کے مطالبے پر دوبارہ زور دے رہا ہوں جو یہ آمریت مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔”
اقوام متحدہ کی حقائق کی تلاش کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے گوائیڈو نے بتایا کہ مادورو کے کاؤنٹر انٹیلی جنس (انسداد جاسوسی) کے ادارے، ڈی جی سی آئی ایم نے ایک عورت اور اس کے مرد دوست کو کس طرح گرفتار کیا، اُن کے یہ جانتے ہوئے کہ عورت اپنے حمل کے پہلے تین ماہ میں ہے، گلے گھونٹے جس سے وہ بے ہوشی کے قریب پہنچ گئے۔ حکومت نے ایک ماہ تک اس عورت کو طبی امداد فراہم نہیں کی۔ آخرمیں اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اُس کا حمل ضائع ہو گیا۔
گوائیڈو نے کہا کہ یہ رپورٹ اِن جرائم کے لیے “نکولس مادورو کی انفرادی ذمہ داری کی تصدیق کرتی ہے۔”
اس سے پہلے یہ آرٹیکل ایک مختلف شکل میں اس سے پہلے اکتوبر 1 2020 کو شائع ہو چکا ہے۔