اقوام متحدہ کے منشور کے 75 سال

دستخط کرتے ہوئے آدمی کے پیچھے جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور اُس کے گرد لوگ کھڑے ہیں (© AP Images)
انتہائی بائیں جانب کھڑے صدر ہیری ٹرومین سمیت امریکی وفد کے اراکین، سینیٹر ٹام کونلی کے ارد گرد کھڑے ہیں جو 26 جون 1945 کو سان فرانسسکو میں اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

جب 26 جون 1946 کو اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط ہوئے تو اس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور کا وہ منظرنامہ ترتیب پایا جس میں بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنا طے پایا۔

اقوام متحدہ کے ابتدائی 51 اراکین میں سے 50 نے سان فرانسسکو کانفرنس میں اس منشور پر دستخط کیے۔ (پولینڈ نے دو ماہ بعد منشور پر دستخط کیے)۔ اس منشور میں اقوام متحدہ کے امن اور بین الاقوامی سلامتی برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

یہ بات اہم ہے کہ 24 اکتوبر 1945 کو نافذ العمل ہونے والا اقوام متحدہ کا یہ منشور عالمی حمایت یافتہ پہلی ایسی دستاویز تھی جس میں انسانی حقوق پر توجہ دی گئی تھی۔ اس منشور کی انسانی حقوق کی شقوں کو تین سال بعد یعنی 1948ء میں مضبوط بنایا گیا۔

وسیع حمایت حاصل کرنا

اقوام متحدہ کے منشور پر دستخطوں سے پہلے اس پر واشنگٹن میں واقع ڈمبارٹن اوکس میں ابتدائی بحث و تمحیص ہوئی۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی 10 جولائی 1945 کی اشاعت میں لکھا، “[امریکی] قانون سازوں اور محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کے ایک گروپ نے امن کی تنظیم کے ابتدائی نکات پر کام کیا۔”

تاہم صدر ہیری ٹرومین اس عمل میں عام شہریوں کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔

صدر ٹرومین ایک کاغذ پر دستخط کر رہے ہیں اور وزیر خارجہ برنز اُن کے قریب بیٹھے ہیں۔ (© John Rooney/AP Images)
صدر ہیری ٹرومین (بائیں) اقوام متحدہ کے منشور کی توثیق مکمل کرنے کے لیے اس پر دستخط کر رہے ہیں اور وزیر خارجہ جیمز برنز انہیں دیکھ رہے ہیں۔ (© John Rooney/AP Images)

ٹرومین نے ایک عوامی تنظیم کے ڈائریکٹر، کلارک آئیکلبرگر کے نام ٹیلی گرام میں لکھا کہ اگر امریکی عوام “یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ منشور کیا ہے اور اس کی دنیا کے امن کے حوالے سے کیا اہمیت ہے” تو صرف اسی صورت میں “یہ دستاویز ایک زندہ انسانی حقیقت بن سکتی ہے۔” اس کے جواب میں آئیکلبرگر نے ایک تعلیمی مہم کا آغاز کیا جس میں سکولوں کے ساتھ ساتھ کاروباروں، محنت کشوں اور زرعی گروپوں کو بھی شامل کیا گیا۔

عوامی تجزیہ ڈمبارٹن اوکس میں مرتب کردہ تجاویز میں کی جانے والی اُن تبدیلیوں کا باعث بنا جو سان فرانسسکو میں منشور پر دستخطوں سے پہلے منشور میں شامل کیں گئیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کانگریس کے بہت سے اراکین نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا اور “دیگر ممالک کو مطمئن کرنے کے لیے بھی [منشور میں تبدیلیاں] کیں گئیں۔ لہذا یہ منشور حقیقی طور پر جمہوری عمل کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے۔”

اقوام متحدہ کا طریقِ کار

اقوام متحدہ کی اسمبلی کے دوران وفود کے ارکان بیٹھے ہوئے ہیں (© AP Images)
21 ستمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا افتتاحی اجلاس پیرس کے پیلے دو شیلوٹ کے تھیئٹر میں ہو رہا ہے۔ (© AP Images)

تنازعات کے اجتماعی حل تلاش کرنے کی خاطر دنیا کے ممالک کے لیے ایک ذریعے کے طور پر اقوام متحدہ مذاکراتی حلوں کو فروغ دیتی ہے۔ (بعض اوقات اس میں کسی تیسرے فریق کو بطور ثالث شامل کیا جاتا ہے)۔

گو کہ اقوام متحدہ کی اولین ترجیح تصادموں کی روک تھام ہے مگر اقوام متحدہ بھوک، بیماریوں اور ناخواندگی کے لیے تیار کیے گئے پروگراموں کے ذریعے بھی سماجی ترقی اور زندگی کے بہتر معیاروں کو فروغ دیتی ہے۔ مزید برآں یہ عالمی تنظیم ثقافتی اور تعلیمی تبادلات کی ترویج کے لیے ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات کے قیام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔

مگر اِن تمام کاموں کا انحصار ایک ایسے کثیرالجہتی نظام کو یقینی بنانے پر ہے جو کسی خاص ملک کی حمایت کرنے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کو رد کرتا ہو۔

اقوام متحدہ کے منشور کی شق 100 میں کہا گیا ہے، ” [اقوام متحدہ کا] سیکرٹری جنرل اور عملہ کسی بھی حکومت سے ایسی ہدایات نہیں لے گا یا کسی کا اختیار نہیں مانے گا جو اس تنظیم کے منشور کے خلاف ہو۔ وہ ایسے اقدام سے بھی اجتناب کریں گے جس سے ایک بین الاقوامی اہلکار کی حیثیت سے اُن کے کردار پر حرف آتا ہو۔ وہ صرف اس تنظیم کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

اس کے علاوہ شق 100 اقوام متحدہ کے ممبران کو تنظیم کی غیرجانبداری کی سربلندی کا پابند بناتی ہے یعنی “سیکرٹری جنرل اور عملے کی تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کرنے اور اُن کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے دوران اُن پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کرنے کا پابند بناتی ہے۔”

آج اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے اور دنیا کا تقریباً ہر ایک ملک اس میں شامل ہے۔ اس کی کامیابی کو ایک بڑی حد تک تین عناصر سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

پہلے، اقوام متحدہ تمام اراکین کے ساتھ مساوی سلوک کرتی ہے اور سب کا برابر کا احترام کرتی ہے۔ اس سے دنیا کے ممالک کے مابین پائی جانے والی عدم مساواتیں کم ہوتی ہیں اور اقوام متحدہ چھوٹے ممالک کو اپنے موقف بیان کرنے کے کئی ایک مواقعے فراہم کرتی ہے۔

دوسرے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اطلاق تمام رکن ممالک پر ہوتا ہے اور طے شدہ قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے مدد اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔ اپنے آفاقی اصولوں کے ذریعے اقوام متحدہ رکن ممالک کے اندر مقامی طبقات کو یہ سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے کہ اُن کی حکومتیں کس طرح اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہیں۔

تیسرے، اقوام متحدہ کی قیادت اُن توقعات پر اثرانداز ہو سکتی ہے جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ بین الاقوامی میدان میں دنیا کے ممالک کس طرح کا روہیہ اختیار کر سکتے ہیں۔ تقریباً تمام حکومتیں اس نظام میں مثبت کردار ادا کرنے والے ممالک کے طور پر دیکھے جانے کی خواہش مند ہوتی ہیں اور ایک معمول کے طور پر اقوام متحدہ کے اداروں کی آفاقی ترجیحات پر پورا اترنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں ردوبدل کرتی رہتی ہیں۔