الزائمر کے بارے میں تاریخی دریافتیں کرنے والا افریقی نژاد امریکی ڈاکٹر

 خورد بین استعمال کرتا ہوا ایک آدمی۔ (Courtesy of the New York Public Library)
ڈاکٹر سولومن کارٹر فلر اپنی تجربہ گاہ میں کام کر رہے ہیں۔ (Courtesy of the New York Public Library)

ڈاکٹر سلومن کارٹر فلر نے بیسویں صدی کے اوائل میں الزائمر کے بارے میں دو اہم دریافتیں کیں۔ الزائمر ایک دماغی بیماری ہے جو رفتہ رفتہ یاد داشت اور سوچنے کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔

ڈاکٹر فلر کو امریکہ کا اولین افریقی نژاد امریکی ماہر نفسیات سمجھا جاتا ہے۔

آج سائنس دان جانتے ہیں کہ الزائمر کی بیماری جو کہ دماغی بیماری، ڈیمنشیا کی ایک  ایسی شکل ہے جس سے دنیا بھر میں تقریباً 44 ملین لوگ  متاثر ہیں۔ اس بیماری میں دماغ میں نیوران اور سائنیپسز [معانقہ عصبی] ختم ہو جاتے ہیں۔

مگر ایک صدی سے بھی زیاہ پہلے، نفسیاتی ماہرین اور دماغی امراض کے ماہرین کا خیال تھا یہ پاگل پن کی کوئی شکل ہے۔ اُس وقت ذہنی بیماری کے لیے یہی وسیع تر اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ فلر کی تحقیق نے یہ رویہ تبدیل کر دیا۔

فلر لائبیریا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا نے جن کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا تھا اپنی آزادی مول خریدی اور واپس افریقہ ہجرت کر گئے۔ فلر 1889 میں کالج کی تعلیم لیے امریکہ واپس آئے اور انہوں نے شمالی کیرولائنا کے لونگسٹن کالج میں تعلیم حاصل کی۔

ایک عشرے کے بعد فلر نے بوسٹن یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے علم امراض میں تعلیم حاصل کی اور اسی شعبے میں معلم کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

بیماریوں پر توجہ مرکوز

چند برس بعد فلر کو میونخ کے شاہی نفسیاتی ہسپتال میں، الوئس الزائمر کے ہمراہ دماغی امراض کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ الزائمر کی زیرنگرانی فلر نے دماغی امراض کی سائنس اور اس مرض پر تحقیق  کرنا شروع کر دی۔

اس کے بنیادی محقق یعنی الزائمر کی مناسبت سے اس بیماری کو ابھی “الزائمر” کا نام نہیں دیا گیا تھا مگر فلر نے ایسے مریضوں کے دماغوں کا مطالعہ شروع کر دیا جن میں الزائمر کی علامات پائی جاتی تھیں۔ فلر جب امریکہ واپس آئے تو انہوں نے الزائمر کی مرض کے بارے میں میسا چوسٹس کے ویسٹ بورو ہسپتال میں تحقیق کرنا جاری رکھا اور پھر یہیں انہوں نے دو تاریخی دریافتیں کیں۔

فلر نے دریافت کیا کہ وہ مریض جن میں یہ مرض پایا جاتا ہے اُن میں دو بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں الزائمر کے مرض کی بڑی نشانیاں ہیں۔ ان نقائص کا تعلق دماغ میں پائی جانے والی باجرے کے دانوں کے برابر چربی اور گنجلک ریشوں سے ہے۔

فلر نے الزائمر سے پانچ ماہ پہلے نہ صرف گنجلک ریشوں کے بارے میں لکھا بلکہ انہوں نے امریکہ اور بیرونی ممالک میں دماغی امراض کے ماہرین ڈاکٹروں کے لیے اس بیماری کو پاگل پن کی بجائے ایک طبعی بیماری سمجھنے کی راہ بھی ہموار کی۔

الزائمر کی تحقیق میں فلر کی خدمات کے باوجود وہ نسل پرستی کے اثرات سے بچ نہ سکے۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی سے 1933 میں اُس وقت ریٹآئر ہو گئے جب اُن کے ایک سفید فام ساتھی کو دماغی امراض کے شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا حالانکہ ترقی یا تنخواہ میں اضافے کے بغیر وہ غیر سرکاری طور پر اس شعبے کی برسوں سے سربراہی کرتے چلے آ رہے تھے۔

اپنی ریٹائرمنت کے بارے میں انہوں نے کہا، “اگر میری جلد کی رنگت کی بات نہ ہوتی تو جس قسم کا کام میں نے کیا ہے اُس سے  امکان یہ تھا کہ میں بہت آگے جاتا اور اعلٰی رتبے پر فائز ہوتا۔”

تاہم گزشتہ صدی نے سائنس کو فلر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے دیکھا۔ ماہرین نفسیات کی امریکی ایسوسی ایشن نے اُن کی تکریم میں دماغی صحت کے سیاہ فام پیشہ ور افراد کا ایوارڈ اُن کے نام منسوب کیا۔ اسی طرح بوسٹن میں ڈاکٹر سولومن کارٹر فلر مینٹل سنٹر قائم کیا۔