امداد باہمی کی تنظیموں کو مضبوط بنانے سے پوری دنیا کے محنت کشوں کو مدد ملتی ہے

ہاتھوں میں ادرک اٹھائے ہوئے مسکراتی ہوئی ایک عورت (USAID NEAT)
امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ دنیا بھر میں امداد باہمی کی تنظیموں کی کسانوں کی اپنی فصلوں کی پیداوار بڑہانے اور انہیں منڈیوں سے جوڑنے میں مدد کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ادرک اگانے والی نیپال کی یہ عورت ہے۔ (USAID NEAT)

کٹھمنڈو، نیپال کے قریب مویشی پالنے والی ایک خاتون، رادھیکا بولیکھے جانوروں کے لیے ہاتھوں سے چارہ کترنے پر گھنٹوں صرف کیا کرتی تھیں۔ لیکن پٹیکھوریا امداد باہمی کی تنظیم نے جب بولیکھے سمیت اپنے 1,300 سے زائد اراکین کی تربیت اور اُن کے لیے الات پر سرمایہ کاری کی تو اس کے بعد بولیکھے کے کہنے کے مطابق اب وہ 20 منٹ میں جانوروں کے لیے چارہ کتر لیتی ہیں۔

بولیکھے نے بتایا، “ہم میں اپنے تئیں خشک چارہ کترنے کے لیے درکار مشینری خریدنے کی مالی استطاعت نہیں تھی۔ امداد باہمی کی تنظیم کی مدد کی بدولت، مجھ پر کام کا بوجھ اچھا خاصا کم ہوگیا ہے اور مویشیوں کو غذائیت سے بھرپور چارہ ملنے لگا ہے۔”

نئے آلات تک رسائی سے بولیکھے کے منافعے میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب وہ مویشیوں پر سرمایہ کاری کر سکتی ہیں اور اپنے کاروبار کو پھیلا سکتی ہیں۔

نیپال کے کاوریپالنچوک ضلع کی پٹیکھوریا کا شمار امداد باہمی کی اُن دس ہزار سے زائد تنظیموں اور کریڈٹ یونینوں میں ہوتا ہے جنہیں بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے (یو ایس ایڈ) نے 2001ء کے بعد سے پوری دنیا میں مضبوط بنایا ہے۔

3 جولائی امداد باہمی کی تنظیموں کا عالمی دن ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس دن دنیا بھر میں امداد باہمی کی تنظیموں کے ایک ارب سے زیادہ اراکین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ امداد باہمی کی تنظیمیں صحت اور تعلیم سے لے کر کاشت کاری اور مالیات تک کے شعبوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عدم مساوات کم کرتے ہوئے مشترکہ ملکیت اور جمہوری طریقے سے چلنے والی ان تنظیموں کے تحت چلائے جانے والے کاروبار کورونا وائرس کے بحران سے معیشتوں کو نکلنے میں مدد کر سکتے ہیں اور خوشحالی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

 کھیت میں عورتیں ایک چھوٹی سی مشین کے اردگرد کھڑی ہیں۔ (P. Love/CIMMYT)
نیپال میں عورتیں کاشت کاری میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے کی میشنری تک رسائی حاصل کرنے کے لیے امداد باہمی کی تنظیموں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ (P. Love/CIMMYT)

یو ایس ایڈ کا” کوآپریٹو ڈویلپمنٹ پروگرام” اور شراکت دار تنظیمیں لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے 35 سے زیادہ ممالک میں امداد باہمی کے اداروں میں سرمایہ کاری اور تعاون کر رہی ہیں۔ 2010 میں یو ایس ایڈ نے تنزانیہ میں کسانوں کی واناویک کوانزا (عورتیں پہلے) نامی تنظیم  سے تعلق رکھنے والی ایک درجن عورتوں کی مدد کی۔ دو مہینوں میں اِن عورتوں نے 0.4 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ایک پلاٹ پرسبزیاں اگائیں اور 500 ڈالر بچائے۔ ان کی کامیابی کی وجہ سے گاؤں نے انھیں 0.6 ہیکٹر مزید رقبہ فراہم کیا۔

 سبز پتوں والے پودوں کے درمیان کھڑی دو عورتیں۔ ایک نے پانی کا برتن اور دوسری نے بچہ اٹھایا ہوا ہے (USAID Tanzania)
تنزانیہ میں عورتیں اپنی زرعی پیداوار اور منافعوں میں اضافہ کرنے کے لیے امداد باہمی کے تحت چلنے والے کاروباروں میں اکٹھا مل کر کام کرتی ہیں۔ (USAID Tanzania)

یو ایس ایڈ نے “گلوبل شئیا الائنس” (شئیا پھل کے عالمی  اتحاد) کی شراکت داری سے مغربی افریقہ میں بھی امداد باہمی کی تنظیموں کی مدد کی ہے۔ یہ اتحاد شئیا درختوں سے اعلٰی معیار کا پھل حاصل کرنے میں عورتوں کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اسے امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں خوراک اور کاسمیٹکس (زیبائش) کی منڈیوں میں برآمد کرسکیں۔

ریٹا ڈیمپسن شمالی گھانا میں شئیا گریاں توڑنے والی عورتوں کو منظم کرتی ہیں۔ ڈیمپسن کہتی ہیں، “میں عورتوں کو جمع کرتی ہوں۔ انہیں مہارتیں سکھاتی ہوں۔ میں انہیں بااختیار بناتی ہوں تاکہ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمانے کے قابل رہیں۔ میرا یہی کام ہے۔”

یوایس ایڈ اور اس کی شراکت دار تنظیمیں جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں واقع ایمیزون کے علاقے مییں کافی پیدا کرنے والوں کی مدد بھی کر رہا ہے۔ اس علاقے میں اس لیے کافی پیدا کرنے کے لیے امداد باہمی کی تنظیمیں انتہائی اہم ہیں کیونکہ کاشت کار فرسودہ زرعی تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے پیداوار میں اضافہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم نیشنل کوآپریٹو بزنس ایسوسی ایشن نے سان مارٹن، پیرو میں قائم ایسوسی آسیوں دو پرودکتورس ایکولوگیکوز* (ایپوایکا) کے 20 اراکین کو تربیت دی تاکہ وہ پیداوار بڑہانے کے لیے قدرتی کھاد کے پائیدار استعمال سے مٹی کے معیار کو بہتر بنا سکیں۔