وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 30 نومبر سے لے کر 2 دسمبر تک کے اپنے یورپ کے دورے کے دوران کہا کہ امریکہ اور نیٹو عالمی جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہیں۔
بلنکن نے ریگا، لاتھویا میں نیٹو اتحاد کے وزارتی اجلاس کے دوران نیٹو کے بارے میں کہا، ” یہ ہماری سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ [اتحاد] مشترکہ اقدار کی وجہ سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ یورپ اور شمالی امریکہ میں استحکام کی ایک مضبوط قوت ہے۔”

بلنکن نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔ انہوں نے یوکرین کی سرحد کے قریب روسی فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں [امریکی] انتظامیہ کی تشویش کا اعادہ کیا۔
بلنکن نے کہا، “امریکہ کی یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے ہماری حمایت غیرمتزلزل ہے اور ہم یوکرین کے ساتھ اپنی سکیورٹی کی شراکت داری کے ضمن میں پرعزم ہیں۔” تاہم انہوں نے روس کو خبردار کیا، “ہم یوکرین میں مزید روسی جارحیت کے نتیجے میں سخت پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔”

وزیر خارجہ نے یکم اور دو دسمبر کو یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کی وزارتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ بلنکن نے او ایس سی ای کو ایک “انمول ادارہ” قرار دیا کیونکہ اس کے سکیورٹی کے تصور میں انسانی حقوق اور حکومت کے جمہوری اصولوں کا احترام بھی شامل ہے۔
اپنے دورے کے دوران بلنکن نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے بھی ملاقات کی اور روس پر دباؤ ڈالا کہ وہ یوکرین کے قریب اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کرے، مِنسک معاہدے کے تحت طے پانے والی جنگ بندی کی پابندی کرے اور او ایس سی ای کے نگرانوں کو علاقے تک مکمل رسائی کی اجازت دے۔

بلنکن نے کہا، “بحران سے بچنے کا بہترین طریقہ سفارت کاری ہے۔” تاہم انہوں نے خبردار کیا، “اگر روس نے محاذ آرائی کا فیصلہ کیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔”
امریکہ اور اس کے اتحادی بیلاروس کو بھی جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں۔ امریکہ نے صدر الیگزینڈر لوکاشینکا کے ظلم وجبر کی حمایت میں کردار ادا کرنے پر بیلاروس کے 32 افراد اور اداروں کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
بلنکن نے بیلاروس پر زور دیا کہ وہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے، آزادانہ نگرانی میں منصفانہ انتخابات کرائے اور اپنی سرحدوں پر تارکین وطن کی سمگلنگ کو روکے۔ یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے بھی بیلاروس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

اس دورے کے دوران بلنکن نے آزادی اور استحکام اور گھریلو تشدد اور سرحد پار سے ہونے والی جارحیت کے درمیان تعلق کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا، “ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح منظم طریقے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک دوسرے ممالک میں عدم استحکام کا بیج بوتے ہیں اور کس طرح وہ حکمران جو اپنے اقتدارکا غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہیں، اور دوسرے ممالک کے لیڈروں کو ایسا کرنے کا اجازت نامہ دیتے ہیں۔”
“پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے ملکوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور تمام لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام ضروری ہے۔”