امریکہ امن اور تعاون کی حمایت کرتا ہے: بلنکن

جھنڈوں کے سامنے بیٹھے ہوئے اینٹونی بلنکن (State Dept./Freddie Everett)
وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن 7 مئی کو واشنگٹن سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کثیرالفریقیت کے موضوع پر ہونے والے ایک مباحثے میں شریک ہیں۔ (State Dept./Freddie Everett)

وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اُن ضوابط  اور اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا جو بین الاقوامی امن اور تعاون کی حمایت کرتے ہیں۔

7 مئی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کے دوران بلنکن نے قواعد پر مبنی اُس بین الاقوامی نظام کا دفاع کیا جو جدید تاریخ کا پرامن ترین اور خوشحال ترین دور لے کر آیا ہے اور جدید مسائل سے نمٹنے میں بدستور اہمیت کا حامل ہے۔

عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے سلامتی کونسل کی ایک ماہ کی مدت صدارت کا آغاز کیا۔ اس موقع پر بلنکن نے ایک مداخلتی بیان میں کہا، “بڑے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کثیرالفریقیت اب بھی ہمارا بہترین ذریعہ ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “امریکہ کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ مل کر اس مشترکہ زمین کو تلاش کرنے اور کھڑا ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا جو اس نظام کے ساتھ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا جسے ہم نے مشترکہ طور پر تشکيل  ديا ہے اور جس کا ايک ساتھ مل کر ہميں دفاع کرنا اور اسے تقویت پہنچانا ہے۔”

ٹویٹ:

محکمہ خارجہ

آج محکمہ خارجہ کی طرف سے وزیر خارجہ بلنکن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کثیرالفریقیت پر کھلی بحث میں شرکت کی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کی بنیاد تصادموں کو روکنے، بات چیت کو برقرار رکھنے اور تمام ممالک کے فائدوں کے لیے ایک نظام وضح کرنے کے مشترکہ اصول تھے۔ بلنکن نے کہا، ” یہ ایک روشن خیال ذاتی مفاد تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ دوسری قوموں کی کامیابیاں ہماری کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔”

بلنکن نے کہا کہ اصولوں پر قائم نظام دنیا بھر میں سر اٹھاتی وطن پرستی اور بڑھتے ہوئے جبر سے نمٹنے اور کووڈ-19 وبائی بیماری اور موسمیاتی بحران کا سامنا کرنے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

بلنکن نے کہا کہ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک اپنے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کریں، دوسرے ممالک کی خود مختاری کا احترام کریں اور انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کریں۔ انہوں نے اِن دعووں کو رد کیا کہ حکومتیں جو کام اپنے ملکوں کی سرحدوں کے اندر کرتی ہیں یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔

بلنکن نے کہا، “انسانی حقوق اور وقار کو بین الاقوامی نظام کی بنياد کے طور پر قائم رہنا چاہیے۔ انسانی حقوق کا آفاقی اعلامیہ “آفاقی” کے لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے ہماری اقوام اس پرمتفق ہیں کہ کچھ حقوق ایسے ہیں جن کا ہر فرد، دنیا مِیں ہر جگہ، حقدار ہوتا ہے۔”

بلنکن کا اصولوں پر قائم بین الاقوامی نظام کا دفاع ایک ایسے موقعے پر سامنے آیا ہے جب سات ممالک کے گروپ (جی 7) نے 5 مئی کے ایک اعلامیے میں یوکرین کے ساتھ روس کے سرحد پرفوج جمع کرنے کو غلط قرار دیا اور پی آر سی سے انسانی حقوق اور بنیادی آزدیوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔

جی 7 نے شنجیانگ میں “سیاسی تعلیم نو” کے کیمپوں اور جبری مشقت اور نس بندی کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ہمیں شنجیانگ اور تبت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں، بالخصوص ویغروں کو نشانہ بنانے کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ ہم موقعے پر صورت حال کی تحقیقات کرنے کے لیے شنجیانگ میں آزادانہ اور بلا روک ٹوک رسائی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔”

جی 7 ممالک میں امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔ یورپی یونین کے اعلٰی نمائندے بھی مشترکہ اعلامیے میں شامل تھے۔