Women working in farm field (USAID)
یو ایس ایڈ کے "فیڈ دا فیوچر" پروگرام کے تحت مہیا کی جانے والی تکنیکی امداد اور تربیت کی وجہ سے تنزانیہ کی یہ خواتین اپنے کھیتوں کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے زیادہ منافعے کما رہی ہیں۔ (USAID)

یوگنڈا کی روز لکواگو ناسالی کے سوروں کے فارم میں جانوروں کی تعداد میں اب اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے چارے کا ایک ایسا فارمولا تیار کیا ہے جس میں مکئی کے بھٹے سے دانے اتارنے کے بعد خالی  بھٹے کو استعمال کیا جاتا ہے جنہیں کسان اکثر ضائع کر دیتے ہیں۔

ناسالی نے بتایا، “میرا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔” وہ اس کامیابی کا سہرا بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یعنی یو ایس ایڈ اور بھارت کی زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت کے زیر انتظام منعقد کیے گئے  پندرہ  روزہ ایک کورس کے سر باندھتی ہیں۔

اس پروگرام نے ناسالی کو سکھایا کہ مکئی کے بھٹوں سے دانے اتارنے کے بعد اس کے باقی رہ جانے والے حصے کی  بھی غذائی اہمیت ہوتی ہے۔ جب وہ یوگنڈا واپس لوٹیں تو انہوں نے اپنے فارم کے سوروں کے لیے مکئی کے دانوں کے بغیر بھٹوں سے نئی خوراک تیار کی۔

ناسالی نے کہا، “یوگنڈا کے برعکس جہاں چیزوں کا ضیاع بہت زیادہ کیا جاتا ہے، کھیت سے صارف تک کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ ہر چیز کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ”

ناسالی کا شمار امریکہ اور بھارت کے مشترکہ، مستقبل کے بھارت کو خوراک مہیا کرنے کے سہ فریقی تربیتی پروگرام کے تحت خصوصی تربیت حاصل کرنے والے 717 افراد میں ہوتا ہے۔ 2020ء تک اس پروگرام کے تحت 11 افریقی اور ایشیائی ممالک کے  زراعت کے پیشے سے جڑے 1,500 افراد کو تربیت دینے کا پروگرام ہے۔ اِن میں زرعی  شعبے میں کام کرنے والے کسان، خوراک تیار کرنے والے، زرعی کاروبار کے مالکان اور زرعی پالیسی بنانے والے ماہرین شامل ہیں۔ اِن کے تربیتی موضوعات میں امریکہ اور بھارت میں ہونے والی زرعی اختراعات اور کاشتکاری کے جدید ترین طریقے شامل ہیں۔

ناسالی نے کہا کہ اس تربیتی پروگرام کی وجہ سے “سوروں کے پالنے والا میرا منصوبہ یقینی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔”

رابطے میں رہتے ہوئے دوسروں کی مدد کرنا

Men standing in water, hauling fish in a net (USAID)
“فیڈ دا فیوچر” پروگرام کے تحت بنگلہ دیش میں آبی وسائل سے منسلکہ کاموں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ (USAID)

زیادہ تر تربیتی  [کلاسیں] بھارت کی خصوصی تحقیقی تربیتی انسٹی ٹیوٹوں میں ہوتی ہیں۔ اس پروگرام کو چلانے والے یو ایس ایڈ کے ایک زرعی ماہر، وامسی ریڈی کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں درمیانے درجے سے لے کر اعلٰی درجے تک کے ان زمینداروں کو شامل کیا جاتا ہے جو ہر تربیتی کلاس کے بعد “یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں واپس جانے کے بعد سیکھے گئے اپنے اس نئے علم کو کیسے عملی جامہ پہنائیں گے۔”

انہوں نے بتایا کہ تربیت کا 60 فیصد وقت جن امور پر صرف کیا جاتا ہے اُن میں نئی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے والے زیر تربیت افراد، نئی ٹکنالوجیاں تیار کرنے والی جگہوں کے دورے اور اِن ٹکنالوجیوں کو استعمال کرنے والے کاشت کاروں سے ملاقاتیں شامل ہوتی ہیں۔

ریڈی کہتے ہیں کہ اس تربیتی پروگرام کے شرکاء “زیادہ پراعتماد ہو کر اپنے ملکوں کو واپس جاتے ہیں” اور معلومات کے تبادلے کو جاری رکھنے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑہانے کے لیے وٹس ایپ گروپ اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کے ذریعے آپس میں رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا “زیرتربیت افراد کو یہ احساس ہے کہ بھارت کے تھوڑی زمین کے اکثریتی مالکان کا سیاق و سباق اُن کے ملکوں کے سیاق و سباق سے ملتا جلتا ہے اور اگر یہ نئی ٹکنالوجیاں بھارت میں کامیاب ہیں تو اِن کے اپنے ملکوں میں بھی انہیں کامیاب ہونا چاہیے۔”

ناسالی نے سوروں کی خوراک کا وہ فارمولا یوگنڈا کے دوسرے کسانوں کو بھی بتایا ہے۔ اس سے قبل مکئی کے دانے اتارنے کے بعد بھٹوں کے باقی حصہ ضائع ہو جاتا تھا۔ آج ” کسانوں کو بظاہر بیکار دکھائی دینے والی اس چیز کا ایک نیا استعمال سامنے آیا ہے۔” 

شریک ممالک

افریقہ: بوٹسوانا، سوڈان، یوگنڈا، گھانا، لائبیریا، کانگو، روانڈا، موزمبیق، ملاوی، تنزانیہ، کینیا

ایشیا: کمبوڈیا، منگولیا، برما، ویت نام، لاؤس، افغانستان