
امریکہ اور بین الاقوامی شراکت دار برمی عوام کے جمہوریت کے مطالبات کی حمایت کر رہے ہیں اور پرامن مظاہرین کے خلاف فوجی تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد, برما کی فوج نے جمہوریت کے مطالبات کا جواب پُرتشدد کاروائیوں کی صورت میں دیا ہے۔ اِن پرتشدد کاروائیوں کے دوران متعدد بچوں سمیت 890 سے زیادہ افراد کو ہلاک اور 5000 سے زائد دیگر افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سات ممالک کے گروپ، جی سیون کے وزرائے خارجہ نے 23 فروری کے ایک بیان میں کہا، “ہم بغاوت کی مخالفت کرنے والوں کو دھمکیاں دینے اور اُن پر کیے جانے والے ظلم و جبر کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک نظام کے تحت مظاہرین، ڈاکٹروں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کو نشانہ بنانا ہرصورت میں بند ہونا چاہیے۔”
جی سیون ممالک میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ اس بیان میں یورپی یونین کے اعلٰی نمائندے بھی شامل ہوئے۔
امریکہ اور شراکت دار ممالک نے بغاوت اور پرامن مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار برمی فوج کے عہدیداروں پر پابندیاں لگائیں اور فوج کی مدد کرنے والی برمی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 21 اپریل کو برمی حکومت کی دو کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “ہم برما کے عوام کی اس بغاوت کو مسترد کرنے کی کوششوں میں ان کی حمایت کرنا جاری رکھیں گے اور ہم فوجی حکومت سے مطالبہ کرتے رہیں گے کہ وہ تشدد بند کرے، غیرمنصفانہ طور پر نظربند افراد کو رہا کرے اور برما کے جمہوریت کی راہ (پر سفر) کو بحال کرے۔”
اس مضمون میں برمی فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور اسے باز رکھنے کے لیے امریکہ کی طرف سے وقتا فوقتا کی جانے والی کوششوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
13 جولائی
برمی فوج کے جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور برمی عوام کے خلاف تشدد کے رد عمل میں امریکہ اور شراکت داروں نے حال ہی میں برما کے خلاف نئی پابندیاں عائد کیں ہیں۔
بلنکن نے 2 جولائی کو برما اور کانکنی اور حکومت کی حمایت کرنے والی ٹکنالوجی کی کمپنیوں کے 22 عہدیداروں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “ہم اس وقت تک فوج اور اس کے لیڈروں کے خلاف اضافی کاروائیاں اور اُن کو اس کی بھاری قیمت چکانے پر مجبور کرتے رہیں گے جب تک وہ اپنے اقدامات واپس نہیں لے لیتے اور جمہوریت کی طرف لوٹ نہیں جاتے۔”
ان قدغنوں نے ایک ایسے وقت میں پابندی کی زد میں آنے والوں کو امریکہ کے ساتھ لین دین کرنے سے روک دیا گیا ہے جب فوجی حکومت کے خلاف بین الاقوامی اتفاق رائے زور پکڑتا جا رہا ہے۔

18 جون کی ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کے 119 اراکین نے برمی فوج کے تشدد کی مذمت کی اور بحران کو حل کرنے کے لیے کی جانے والی علاقائی کوششوں کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکر بوزکیر نے اس قرارداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “بربریت اور خونریزی پر تعمیر کیا جانے والا نظام نہیں چل سکتا۔”
یورپی یونین اور برطانیہ نے 21 جون کو برمی فوج کے عہدیداروں اور کمپنیوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومنیک راب نے کہا، “اپنے اتحادیوں کے ہمراہ اس ناجائز حکومت کے مالی وسائل کو نشانہ بناتے ہوئے ہم میانمار کے فوجی ٹولے سے منسلک کمپنیوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔”
26 مئی
امریکہ اور کینیڈا برما کی فوجی حکومت کے عام شہریوں پر کیے جانے والے تشدد اور برما میں جمہوریت کی بحالی سے انکار کے جواب میں فوجی حکومت کے خلاف اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
The U.S. is designating Burma’s State Administrative Council and 16 individuals connected to the military regime. We take this action alongside the UK and Canada, who are also imposing costs on the regime. Thank you to my counterparts, @DominicRaab @MarcGarneau, for your efforts.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) May 17, 2021
بلنکن نے 17 مئی کو کہا، “جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا ہے، امریکہ بغاوت کے ذمہ داروں کی جوابدہی کو فروغ دینا جاری رکھے گا۔ ہمارے اور ہمارے شراکت داروں کے آج کے اقدامات ہمارے اُس عزم کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں جس کا تعلق (برمی) حکومت پر اس وقت تک سیاسی اور معاشی دباؤ ڈالتے رہنا ہے جب تک یہ حکومت تشدد بند نہیں کرتی اور (برمی) عوام کی رائے کا احترام کرنے کے لیے بامقصد اقدامات نہیں اٹھاتی۔”
ریڈیو فری ایشیا نے خبر دی ہے کہ نئی امریکی پابندیاں مغربی برما میں منڈاٹ پر فوجی حکومت کے گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کے اُن حملوں کے بعد لگائی گئی ہیں جن میں کم از کم پانچ سویلین شہری ہلاک ہوئے۔
24 مئی
اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے برما کی فوج نے انٹرنیٹ باربار بند کیا جو کہ برمی عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اس سے معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
معلومات تک رسائی انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیے میں رقم ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے بے شمار نقصانات ہوئے ہیں جن کا تعلق آن لائن کاروباروں کو بند کرنے سے لے کر صحت عامہ اور کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کو خطرے میں ڈالنے تک سے ہے۔
#Myanmar’s military and police must ensure the right to peaceful assembly is fully respected and demonstrators are not subjected to reprisals. Internet and communication services must be fully restored to ensure freedom of expression and access to information. https://t.co/CvT0P4hVSo
— UN Human Rights (@UNHumanRights) February 6, 2021
7 اپریل
امریکہ نے 75 ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر یکم اپریل کو ایک بیان جاری کیا جس میں جیلوں میں بند صحافیوں سمیت برما کی فوج کی جانب سے غیرمنصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کی رہائی اور برمی عوام کے خلاف حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے دوستوں کے گروپ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، “ہم میانمار میں صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں کے خلاف تشدد سمیت بڑھتے ہوئے تشدد اور مظاہرین کے قتل، من مانی گرفتاریوں اور تشدد پر پریشان اور حیرت زدہ ہیں۔ ہم یکطرفہ طور پر گرفتار کیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کے مطالبے میں شریک ہیں۔”

یکم اپریل
30 مارچ کو بلنکن نے برما کی فوج کے ساتھ کاروبار کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے تعلقات پر ازسرنو غور کریں۔ جاپان کی مشروبات کی کمپنی، کیرین اور جنوبی کوریا کی سٹیل بنانے والی پوسکو کوٹیڈ ایند کلر سٹیل جیسی کمپنیوں نے اُن برمی کمپنیوں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لیے جو جمہوریت کی بحالی کے مطالبات کو نظرانداز کرنے والی فوج کی مدد کرتی ہیں۔
امریکہ اور بین الاقوامی شراکت داروں نے بغاوت اور پرامن مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار برما کے فوجی عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ 25 مارچ کو امریکہ نے اُن عہدیداروں اور فوجی یونٹوں پر پابندیاں عائد کیں جنہوں نے لوگوں کے ہجوموں پر گولیاں چلائیں اور دیگر پرامن مظاہرین پر حملے کیے۔
22 مارچ کو یورپی یونین نے فوجی بغاوت اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کے سلسلے میں 11 افراد پر پابندیاں لگائیں۔ اِن میں بعض وہ عہدیدار بھی شامل ہیں جن پر امریکہ پہلے ہی پابندیاں لگا چکا ہے۔
آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا اور امریکہ سمیت ایک درجن ممالک کے دفاعی سربراہوں نے 27 مارچ کو ایک مشترکہ بیان میں نہتے عوام کے خلاف مہلک طاقت کے استعمال پر برمی فوج کی مذمت کی۔
اِن عہدیداروں نے کہا، “کوئی بھی پیشہ ور فوج طرزعمل کے بین الاقوامی معیاروں کی پاسداری کرتی ہے اور جن عوام کی یہ خدمت کرتی ہے ان کی حفاظت کرتی ہے نہ کہ انہیں نقصان پہنچاتی ہے۔”