دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ایشیا میں امریکی دفاعی مفادات کیلئے جاپان اور امریکہ کے اتحاد کو بنیادی حیثت حاصل ہے ۔علاقائی استحکام اور خوشحالی دونوں ملکوں کی شراکت داری کی بنیاد ہے۔
یہاں دفاعی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے 20ویں صدی کے وسط سے امریکہ اور جاپان کے مابین سفارتی تعاون کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔
1951-1952

دوسری جنگ عظیم کے رسمی اختتام اور جاپان پر اتحادیوں کے قبضے کے بعد جاپان سے امن معاہدے کے لیے عہدیدار 8 ستمبر 1951 ء کو سان فرانسسکو میں ملے۔ 28 اپریل 1952 کو جب یہ معاہدہ نافذ العمل ہوا توجاپان ایک بار پھر خود مختار ریاست اور امریکہ کا اتحادی بن گیا۔
امن معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکہ اور جاپان کے عہدیداروں نے امریکہ اور جاپان کے درمیان باہمی دفاع اور تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کیے جس کی دس سال بعد تجدید کی جا سکتی تھی۔ اس معاہدے میں جاپان کی سلامتی کے انتظامات ایسے انداز سے کیے گئے ہیں کہ جن سے اس کے جنگ مخالف آئین کو تحفظ ملتا ہے۔
1960

جاپان اور امریکہ نے 19 جنوری 1960 میں باہمی دفاع اور تعاون کے ایک نظرثانی شدہ معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فریقین اس بات پر رضامند ہوئے کہ جاپان کے زیر انتظام علاقوں پر حملے کی صورت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں گے حالانکہ جاپان آئینی طور پر بین الاقوامی تنازعات کو فوجی قوت سے حل کرنے کا مخالف ہے۔ معاہدے میں بین الاقوامی اور اقتصادی تعاون کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا۔
1969-1972

نومبر 1969 ء میں جب جاپانی وزیر اعظم ایساکو ساٹو نے واشنگٹن کا دورہ کیا تو امریکی صدر رچرڈ نکسن اور جاپانی وزیراعظم نے ایک مشترکہ اعلامیے میں دورانِ جنگ امریکی قبضے میں آنے والے جاپانی علاقے اوکی ناوا کو 1972 ء تک واپس کرنے کا اعلان کیا۔ 18 ماہ کی بات چیت کے بعد واپسی کی ٹھوس دفعات کے تحت 1971 ء میں دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
1978-1981

جاپان اور امریکہ نے باہمی تعلقات کے راہنما اصول طے کرتے ہوئے دونوں ممالک کی افواج کے کردار کا تعین کیا گیا۔ (جاپان کی دفاعی فوج ہے۔ مگر بیرون ملک یو این امن مشنوں کی کاروائیوں کے علاوہ جاپان کسی قسم کی کوئی فوجی کاروائی نہیں کرتا۔)
جاپان اپنے سمندروں اور اِن کے اردگرد ساحلوں کے دفاع سے متعلق زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں پوری کرتا ہے، جاپان میں امریکی افواج کی زیادہ سے زیادہ مدد کا وعدہ کرتا ہے اور اپنے ذاتی دفاع کی صلاحیتوں کو مضبوط تر بناتا ہے۔
1983-1987

جاپان اور امریکہ کے ایک ورکنگ گروپ نے 1983 ء میں توانائئ کے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے ریگن اور ناکاسونے کا مشترکہ اعلامیہ تیار کیا۔ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال سے متعلق تعاون کے ایک سمجھوتے کی وجہ سے 1987ء میں دو طرفہ تعلقات میں مزید پیش رفت ہوئی۔
2011-2018

مارچ 2011 ء میں 9 درجے کی شدت سے آنے والے زلزلے اور بعدازاں سونامی نے شمال مشرقی جاپان تباہ مچا دی۔ امریکہ اور جاپان کی افواج نے ضروری اشیاء کی فراہمی اور امدادی کاروائیوں کی رابطہ کاری کے دونوں ممالک کے اتحاد کی تاریخ کے ایک بڑے مشن کا آغاز کیا۔
جولائی 2018 ء میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور مٹی کے تودوں سے مغربی جاپان میں نقصان ہوا تو بین الاقوامی امداد کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے بیرونی ممالک میں ہونے والی تباہیوں میں مدد کرنے والے دفتر نے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے ہنگامی فنڈ فراہم کیے۔ یو ایس ایڈ نے ایک بار پھر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ستمبر 2018 ء میں6.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے سے متاثر ہونے والے جاپانی جزیرے، ہوکا ئیڈو میں بھرپور امدادی کاروائیں کیں۔
2021-2023

اپریل 2021 میں صدر بائیڈن نے جاپان کے وزیر اعظم شوگا یوشی ہیڈے کا خیرمقدم کیا اور بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے اور دنیا بھر میں امن اور سلامتی میں بنیادی حیثیت کے حامل اپنے اتحاد کی تجدید کی۔
جنوری 2023 میں صدر بائیڈن نے جاپانی وزیر اعظم کشیدا فومیو کا واشنگٹن میں خیرمقدم کیا (اوپر تصویر میں) اور دونوں نے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے اور دیگر مقامات پر چیلنجوں کے خلاف دفاع کو مضبوط بنانے اور محفوظ، لچکدار رسدی سلسلے تشکیل دے کر اپنی معیشتوں کو بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور جاپان کے درمیاں خلائی تحقیق کے فریم ورک کے سمجھوتے پر دستخط بھی کیے گئے۔
اس سے پہلے یہ مضمون 24 مئی 2019 کو بھی شائع ہو چکا ہے۔