امریکہ اور دنیا بھر میں رہنے والے روسیوں کے امن کے حق میں مظاہرے

دنیا بھر اور امریکہ میں اپنے آپ کو روسی کہلانے والے لوگ یوکرین کے عوام اور آزادی کی حمایت کا اظہار کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کریملن کی یوکرین کے خلاف بھرپور جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر 24 فروری کو امریکہ میں بہت سے روسی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے لیے اُسی طرح باہر سڑکوں پر نکلے جیسا کہ اس جنگ کے آغاز کے فوراً بعد بہت سے لوگ باہرنکلے تھے۔

بعض نے مشعل برداروں کی صورت میں شبینہ دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جب کہ بعض نے امن کے گیت گائے اور ولادیمیر پوتن کے خلاف نعرے لگائے۔

رات کے وقت ایک دعائیہ تقریب کے دوران ہاتھ میں موم بتی پکڑے اور یوکرین کا پھولوں سے بنا روائتی تاج پہنے ہوئے ایک عورت (© Jose Luis Magana/AP)
احتجاجی مظاہرے میں شریک، صوفیہ کوخانووا نے 24 فروری کو واشنگٹن میں روسی فیڈریشن کے سفارت خانے کے باہر یوکرین کے حق میں نکالی جانے والی ایک ریلی کے دوران ہاتھ میں موم بتی اٹھا رکھی ہے۔ (© Jose Luis Magana/AP)

واشنگٹن میں مظاہرین میں شامل ایک شخص نے ایک کتبہ اٹھایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ “میں روسی ہوں اور میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوں” جبکہ دیگر مظاہرین نے ہاتھوں میں موم بتیاں پکڑے روسی فیڈریشن کے سفارت خانے کے باہر ریلی نکالی۔ اُس روز دن کے وقت ہزاروں افراد نے لنکن کی یادگار کی سیڑھیوں کے سامنے ریلی نکالی اور بعد میں وہ وائٹ ہاؤس تک گئے۔

واشنگٹن میں قائم ‘فری رشیا فاؤنڈیشن’ نامی تنظیم نے 24 فروری کو ایک بیان میں کہا کہ “ہم پوتن حکومت کی جارحانہ پالیسی کی مذمت کرتے ہیں جو کہ اس جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔ اس غیرمنفعتی فاؤنڈیشن نے “دنیا بھر میں روسیوں کو متحد کرنے اور یوکرین کے خلاف کریملن کی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے” #NOTOWAR/#HETBOЙHE [جنگ سے انکار] کے نام سے ایک ہیش ٹیگ کا بھی آغاز کیا۔

ایک عمارت کے پاس ہاتھوں میں کتبے، موم بتیاں اور پھول لیے کھڑے لوگ (© David ‘Dee’ Delgado/Reuters)
روس کے یوکرین پر بھرپور حملے کے ایک سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے کی شام یعنی 23 فروری کو یوکرین کی حمایت کے اظہار کے لیے لوگ ایک دعائیہ تقریب کے دوان خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ (© David ‘Dee’ Delgado/Reuters)

اسی طرح کے مناظر نیویارک میں بھی دیکھنے کو ملے جہاں 23 فروری کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بھاری اکثریت نے جنگ کی مذمت کی اور “یوکرین میں ایک جامع، منصفانہ اور دیرپا امن” کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ اوپر تصویر میں ایک بچے نے ایک کتبہ اٹھایا ہوا ہے جس پرلکھا ہے: “میں روسی ہوں۔ میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوں۔”

عالمگیر روابط

دیمتری ڈینیئل گلنسکی نیویارک میں قائم  شہری اور انسانی حقوق کی امیریکن رشین سپیکنگ ایسوسی ایشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیویارک کے علاوہ روسی تارکین وطن نے ایلن ٹاؤن، پنسلوانیا اور اٹلانٹا میں بھی ریلیاں نکالیں۔ بین الاقوامی سطح پر کوپن ہیگن، ڈنمارک، پوڈگوریتسا، مونٹی نیگرو؛ اور ہیمبرگ، جرمنی میں ریلیاں نکالیں گئیں۔

اس غیر منفعتی نیٹ ورک میں روس کے سیاسی جلاوطن اور روسی زبان بولنے والے دیگر تارکین وطن امریکی شامل ہیں۔ گزشتہ برس اس نیٹ ورک نے بیرونی ممالک میں رہنے والے یوکرینیوں اور روسیوں کی جنگ مخالف گول میز کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ گلنسکی نے بتایا کہ یہ گول میز انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ورچوئل طریقے سے لوگوں کو عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جوڑتی ہے تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کی جنگ، روسی فیڈریشن میں آزادی کے امکانات اور یوکرین اور روس کے عوام کی مدد کے طریقوں پر بات کی جا سکے۔

اس تنظیم نے حال ہی میں تقریباً  اُن 120 افراد کی ایک ڈائریکٹری شائع کی ہے جن کو اِن کی جنگ مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے روس میں یا روس کے زیرقبضہ یوکرینی علاقوں میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ تنظیم روس کے اندر انسانی حقوق پر جنگ کے مرتب ہونے والے اثرات کا پتہ چلانے کے لیے OVD-Info جیسے دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرتی ہے۔

Tweet showing photo of Russian-Americans in Sacramento, Calif. rallying in support of Ukraine.

انسداد بدعنوانی کی “دی اینٹی کرپشن فاؤنڈیشن” کے مطابق میامی، پٹسبرگ، سان ڈیاگو اور سی ایٹل اُن 18 امریکی شہروں کی کم از کم تعداد میں شامل ہیں جہاں فروری میں امن کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ یہ فاؤنڈیشن ایک غیر منفعتی ادارہ ہے جس کے بانی انسداد بدعنوانی کے ایک سرگرم کارکن اور اپوزیشن سیاست دان، الیکسی ناوالنی ہیں۔ حکومت سے اختلاف رائے رکھنے کی وجہ سے ناوالنی کو زہر دیا گیا اور بعد میں قید کر دیا گیا۔

اوپر کی تصویر میں ریلی کے شرکاء نے ایک کتبہ اٹھا رکھا ہے جس پر “نیمستوف پُل” لکھا ہو اہے۔ اِن الفاظ کا تعلق بورس نیمستوف سے ہے جو جمہورت کے سرگرم حامی اور پوتن کے ممتاز نقاد تھے۔ نیمستوف کو 2015 میں اُس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ پُل پر پیدل چل کر جا رہے تھے۔

اس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ 38 ممالک کے شہروں میں بھی اسی قسم کی ریلیاں نکالیں گئیں۔ اِن ممالک میں ارجنٹینا، فن لینڈ، اسرائیل، جاپان، جنوبی کوریا، برطانیہ اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق دنیا بھر میں آباد روسیوں ںے پوتن کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لگ بھگ  45 ممالک کے 120 شہروں میں ریلیاں نکالیں۔ اِن شہروں میں بیونس آئرس، ارجنٹینا؛ شکاگو؛ ملبورن، آسٹریلیا؛ اور میلان، اٹلی شامل ہیں۔

احتجاجوں  کی اہمیت

سیاسی تجزیہ نگار اور کریملن کے لیے ماضی میں تقریریں لکھنے والے عباس گالیاموف نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ “ہر روسی احتجاج اہم ہے۔ چونکہ پوتن روسیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اُن کی حمایت کریں لہذا ایسی چیز جو یہ ثابت کرے کہ یہ سچ نہیں ہے اُن کے کھیل کو بگاڑتی ہے۔”

Tweet showing a photo of Russian-Americans rallying in Chicago in support of Ukraine.

روس سے تعلق رکھنے والی کیلی فورنیا کی اینا بربنیوا نے سیکرامنٹو میں ” دا وائسز آف رشین اپوزیشن” [روسی حزب مخالف کی آواز] کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے۔ بربنیوا گزشتہ ایک برس سے یوکرین کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

بربنیوا نے کے سی آر اے 3 ٹی وی کو بتایا کہ “اس وقت تمام روسیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی آواز اٹھائیں۔”

کریملن نے 2014 میں جب یوکرین پر پہلا حملہ کیا تو اِس حملے کے خلاف احتجاج کرنے کے بعد بربنیوا کے خاوند کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد بربنیوا اور اُن کے خاندان نے روس چھوڑ دیا۔

بربنیوا نے بتایا کہ ان کے بہت سے روسی دوست ہیں “جو میری طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ یوکرین کی جیت میں مدد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اور ہم یہ کرتے رہیں گے۔”

جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں نے کتبے اور یوکرین کا جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں (© Tayfun Coskun/Anadolu Agency/Getty Images)
25 فروری کو یوکرین میں نکالی جانے والی ایک ریلی کے دوران لوگوں نے کتبے اٹھا رکھے ہیں جن میں سے ایک پر یہ تحریر رقم ہے: ‘جنگ مخالف روسی۔’ (© Tayfun Coskun/Anadolu Agency/Getty Images)