
امریکہ اور دیگر کئی ممالک برما کی فوج سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ جیل میں بند کیے گئے صحافیوں سمیت ان تمام افراد کو رہا کریں جنہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے اور برمی عوام کے خلاف اپنا تشدد بند کرے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے گروپ نے یکم اپریل کو ایک مشترکہ بیان میں کہا، “ہم میانمار میں بڑھتے ہوئے تشدد اور صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں سمیت مظاہرین کے قتل، من مانی گرفتاریوں اور تشدد پر حیرت زدہ ہیں۔ ہم من مانے طریقے سے حراست میں لیے جانے والوں کی فوری رہائی کے مطالبے میں شامل ہیں۔”
یکم فروری کی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد، برما کی فوج نے جمہوریت کے حامی احتجاجی مظاہرین اور دیگر لوگوں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں جن میں صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں سمیت 500 سے زائد افراد کو ہلاک اور 2,000 سے زائد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
امریکہ بھی 75 سے زائد ممالک اور یورپی یونین کے اس بیان میں شامل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس بیان میں 2016ء میں قائم ہونے والے ‘دوستوں کے گروپ’ کی سربراہی کرنے والے فرانس، یونان اور لتھوینیا کے اقوام متحدہ میں مندوبین بھی شامل ہیں۔
BURMA UPDATE: The U.S. together w/ 79 countries & the EU, jointly call for an immediate end to assaults on journalists & media workers in Burma, an accounting of those reported missing, & transparent investigations into allegations of human rights abuses. https://t.co/XaTZaGm2VG
— U.S. Asia Pacific Media Hub (@eAsiaMediaHub) April 2, 2021
‘دوستوں کے گروپ’ نے فوج کی صحافیوں، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کے ساتھ ساتھ معلومات کو روکنے اور احتجاجی مظاہرین کے منظم ہونے کی اہلیت کو محدود کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندشوں پر بھی تنقید کی ہے۔
گروپ کا کہنا ہے، “احتجاجی مظاہرین سمیت صحافیوں کو کسی انتقامی کاروائی یا دھمکی کے خوف کے بغیر ملک کے اندر پیدا ہونے والے حالات پر رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہونا چاہیے۔” گمراہ کن معلومات کا توڑ کرنے اور ملک کے حالات کے بارے میں حقائق بتانے کے لیے “آزادانہ رپورٹنگ بہت زیادہ اہم ہے۔”
فروری میں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن سات ممالک (جی سیون) کے گروپ کے اراکین اور یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں کے برما میں جمہوریت کی بحالی اور پرامن مظاہرین کے خلاف فوجی تشدد کے خاتمے کے مطالبے میں شامل ہوئے۔
امریکہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں نے برمی فوجی کے اُن عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں جو تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں جو فوج کی مدد کرتی ہیں۔