
امریکہ ایسے میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جب آمرانہ حکومتی کووڈ-19 وبا کے دوران جبر میں اضافہ کر رہی ہیں۔
اینٹونی جے بلنکن نے 30 مارچ کو انسانی حقوق کے احوال سے متعلق سال 2020 کی انفرادی ممالک کی رپورٹوں کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “لوگوں کی آزادی اور وقار کے لیے کھڑا ہونا امریکہ کی مقدس ترین اقدار کے لیے ایک اعزاز ہے۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ، ہم سب کے لیے آزادی اور انصاف کی حمایت کرتے ہیں۔ نہ صرف یہاں اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں۔”
1977ء سے جاری کی جانے والی یہ رپورٹیں دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کا کام دیتی ہیں اور زیادتیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی اور بین الاقوامی کوششوں میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ 2020 کی رپورٹیں دنیا بھر میں خلاف ورزیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ظاہر کرتی ہیں۔

2020ء میں حکومتوں نے بیلاروس، وینزویلا اور ہانگ کانگ میں پُرامن مظاہرین کے خلاف کاروائیاں کیں اور اظہار رائے اور اکٹھے ہونے کی آزادی کو دبانے اور آزادانہ انتخابات کے مطالبات کے لیے اٹھائی جانے والی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوششیں کیں۔
بلنکن نے کہا کہ آمرانہ حکومتوں نے ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے کووڈ-19 کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے شہریوں کی نگرانی کرنے اور انٹرنیٹ بند کرنے کے لیے ٹکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کا خاص طور پر ذکر کیا۔
عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) میں حقوق کی صورت حال پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی آر سی میں جب صحافیوں نے کووڈ-19 وبا کے پھوٹ پڑنے کے دوران ووہان میں طبی ارکان کے انٹرویو کیے تو اس کے بعد وہ صحافی لاپتہ ہو گئے۔
بلنکن نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی شنجیانگ میں ویغروں پر کی جانے والی زیادتیوں پر تنقید کی جہاں اکثریتی طور پر مسلمان اقلیتی گروپوں کے افراد کو نظربندیوں، جبری مشقت اور وسیع پیمانے پر نس بندیوں کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کی خراب صورت حال 2021ء میں بھی جاری ہے۔ بلنکن نے اسد حکومت کے شام میں عام شہریوں پر کیے جانے والے تباہ کن حملوں کی مذمت کی۔ ان حملوں میں 21 مارچ کو الیپو میں ایک ہسپتال پر کی جانے والی گولہ باری بھی شامل ہے جس میں دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے وہ انسانی بحران بدتر ہو گیا ہے جو 10 سال قبل اصلاحات کے مطالبات کے جواب میں اسد حکومت کے ظلم و ستم سے شروع ہوا تھا۔
یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد برما کی فوج نے بار بار اُن پرامن مظاہرین پر حملے کیے ہیں جوملک کی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ بلنکن نے خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مظاہریں پر 27 مارچ کے حملوں میں 100 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکہ اُن حکومتوں کو سزا دینے اور باز رکھنے کے لیے بین الاقوامی شراکت کاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہیں۔ کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین، شنجیانگ میں ویغروں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے افراد کے انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے پی آر سی کے عہدیداروں پر پابندیاں لگانے میں امریکہ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔
انہی ممالک نے مارچ میں برما میں فوجی بغاوت اور مظاہرین کے خلاف تشدد میں ملوث افراد پر بھی پابندیاں لگائیں۔ امریکی پابندیوں میں پولیس، اور سکیورٹی کے اُن عہدیداروں اور فوج کے یونٹوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے جنہوں نے پرامن مظاہرین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں کی ہیں۔
بلنکن نے کہا، “صدر بائیڈن انسانی حقوق کو امریکی خارجہ پالیسی میں دوبارہ مرکزی (حیثیت) دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ہم انسانی حقوق کا دفاع کرنے اور زیادتیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اپنی سفارت کاری کے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔”
“